نن مسلم تہوار اور اس میں شر کت و مبارکبادی!چند اصولی مباحث!

 *چھٹھ اور دیوالی کے موقع سے ایک اہم تحریر*



*غیروں کے تہوار کی بابت:مطالعہ_مشورہ*


السلام علیکم ورحمۃاللہ! 

مفتی صاحب ہولی،دیوالی ،چھٹھ یا کرسمس جیسے تہوار میں ایک مسلمان کا شریک ہونا،وہاں ہونے والے فنکشن میں جان بوجھ کر شریک ہونا،پورے جوش و خروش کے ساتھ انہیں مبارکبادی دینا یہ سب ایک مسلمان کے لیے کیسا ہے؟

ٹی وی پروگرام پر آنے والے ایک اسکالر غامدی صاحب ہیں،وہ تو اسے درست کہتے ہیں!کیا یہ تالیف قلبی کے طور پر گوارا ہوسکتا ہے؟ واضح رہے کہ طاب یہ سارے خرافات تہوار و جشن کے نام پر مسلم ممالک میں بھی ہونے لگے ہیں! جہاں ناچ گانا ، مرد وزن کا اختلاط اور بسا اوقات شراب بھی چھلکایے جاتے ہیں۔ 


اس سلسلے میں تفصیل کے ساتھ دیگر مسالک کی روشنی میں آپ ہماری راہنمای فرمائیں!

جزاکم اللّہ خیرا و بارک اللہ فیک! 


اشرف گیا بہار/راحیل فاروق ممبئی/دل شیر دہلی 

____

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! 

جو صورت حال آپ نے لکھی ہے اور ہولی ،دیوالی چھٹھ،یا کرسمس منانے والے کے ساتھ ایک صاحب ایمان کا بھی یہ سب مل کر منانا اور جوش و خروش کے ساتھ مبارک باد پیش کرنے کا شرعی حکم جو آپ نے دریافت کیا ہے.


ان سب کے متعلق اولا ایک سوال آپ سے راقم بھی کرنا چاہتا ہے،وہ یہ کہ کیا کبھی کسی عیسائی یا نن مسلم کو کسی مسلم تہوار عید یا بقرعید میں اس طرح جوش و خروش کے ساتھ آپ شریک ہوتے دیکھتے ہیں؟


کیا انکے مذہبی پوپ یا دھارمک پنڈت کو بھی اس طرح کے مسائل اور سوال و جواب کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟


آیا یہ ایک عام سماجی معاملہ ہے،یا پھر تہذیبی و سماجی غلبہ کا ایک اہم حصہ اور تاثیر وتأثر کا ایک منصوبہ بند کھیل؟


موقع ملے تو تنہائی میں اس پر ضرور غور کیجیے گا!


رہ گیی بات غامدی صاحب کے حوالے سے اسے 'مطلق درست' کہنے کی،تو انہوں نے کیا کہا،وہ جانیں!

ممکن ہے انہوں نے فقط "مبارکبادی" دینے پر ایسا کہا ہو.شریک ہونے اور جوش و خروش سے منانے کی بات وہاں نہ آئی ہو! 


تاہم فقط 'مبارکبادی' دینے کی حقیقت کیا ہے؟تو اس بابت اتنا ضرور جان لیں،کہ اسلام میں ہر کام کو اسکے پیچھے نیت سے جسٹیفائی {justify } کیا جاتا ہے.یعنی درست یا نادرست ٹھہرایا جاتا ہے۔ 


چنانچہ اگر ایسے موقع سے ایک صاحب ایمان اپنی ملی ذمہ داری و اسلامی غیرت کے احساس و شعور کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی راہ ہموار کرنے کے لیے "غیر کفریہ و غیر شرکیہ کلمات پر مشتمل الفاظ میں مبارکبادی" دیتا ہے تو یہ فقط"ہنستے ہوئے کو ہنس کر" ایک جواب دینے جیسا ہے،جس کے پیچھے اصلا اسکی ہدایت کی فکر ہے.تو ظاہر ہے اسکی گنجایش ہوگی.مزید تفصیل کے لیے دیکھیے( نظام الفتاوی جلد اول جز دوم 48)


اسی کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ ہر مذاہب میں کچھ مظاہر و رسوم انکی عبادات و عقائد کے لیے طے شدہ ہیں،جسے اسی مذہب کا خاص دایرہ وشعار سمجھاجاتا ہے.اس میں داخل ہونا کیا ہوتا ہے،اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں!

یہ سراسر ہدایت نبوی "من تشبہ بقوم فھومنھم "لا طاعۃ لمخلوق بمعصیۃ الخالق " نیز "من کثر سواد قوم فھو منھم " کے خلاف ہے۔ 


البتہ یہاں یہی مشورہ دینا چاہیں گے کہ ان جیسے مسائل کو کیونکہ آپ نے اسلامی اسپرٹ سے جاننا چاہا ہے،تو بہتر ہے کسی ایسے اسکالر سے پوچھیں جو شریعت اسلامیہ و تاریخ اسلامی کے غیور ماہرین اور ساڑھے چودہ سو سالہ تحقیق پر اعلی ذہن و دماغ رکھنے والے خدا ترس حاملین قرآن و سنت نیز اہل سنت و جماعت کے زمرے میں آتا ہو.


یا آپ اہل علم میں سے ہیں تو از خود ان تمام تر مصادر و مراجع سے اسےسمجھنے اور جاننے کی کوشش کریں،نا کہ ٹی وی پر آنے والے کسی طور پر مشہور ہوجانے والے مغرب زدہ متاثر الفکر افراد سے،بھلے وہ بھی قرآن و حدیث بلکہ فقط قرآن کی دہائی دیتے نظر آئیں اور عام سادہ ذہن کو اپیل کرے،کیونکہ صدیوں قبل حضرت علی رضی اللہ نے "کلمة حق اريد بها الباطل" یعنی حق بات کی آڑ میں باطل کی آبیاری کوئی محال نہیں،بلکہ عین ممکن ہے،ایسا کہکر ہمیں متنبہ کر دیا تھا. 


اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف!

تو جناب من جہاں تک سماجی اور اور انسانی تعلقات کی بات ہے،تو اس بابت ہم سب کو جاننا چاہیے کہ اقلیتوں سے اچھے سلوک کا حکم اور ان کے ساتھ معاشرے میں رہن سہن کے طور طریقے سبھی شریعت میں واضح ہیں. 


تالیف قلب یا انکی خوشیوں میں شرکت کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ انکے مذہبی تہواروں میں شرکت شروع کر دی جائے؛جو کہ ایک خط امتیاز کا درجہ رکھتا ہے.

آپ یہ اچھا سلوک پورے سال انکے تہواروں کے علاوہ عام سماجی،سیاسی،کاروباری اور تبلیغی و دعوتی زندگی میں جاری رکھیں!کویی منع نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے، تاہم شریک ہوکر مذہبی خط امتیاز کو پھلانگنا اور کراس { Cross }کرنا گویا عقیدتاً نہ سہی،فقط عملاً ہی سہی یہ تو "ڈینجر زون" میں داخل ہونا ہے. 


اسکے بعد آتے ہیں مبارکبادی پر!تو اس بابت یاد رہے کہ نن مسلم کو ان کی کفریہ عیدوں پر اسے بہتر اور اچھا سمجھتے ہویے یعنی اسکی چمک دمک اور موج مستی سے متاثر ہوکر یا اسے قابل عظمت جانکرتہنئتی پیغام دینا یہ بالاتفاق حرام ہے. 


اس متقفہ حرمت کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں! 


اولا:- چند قرآنی آیات پر نگاہ ڈال لی جایے!اور ان پر خوب خوب غور وفکر کیا جایے! 


1-قال تعالى {لا تجد قوما يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله..} المجادلة 22الآية


2-وقال تعالى{قد كانت لكم أسوة حسنة في إبراهيم والذين معه إذ قالوا لقومهم إنا برءاء منكم ومما تعبدون من دون الله كفرنا بكم وبدا بيننا وبينكم العداوة والبغضاء أبداً حتى تؤمنوا بالله وحده...}

الممتحنه الآية4 ".


3- والذين لا يشهدون الزور"الفرقان 72

گناہ اور جھوٹ کی مجلس میں شامل نا ہوں! 


4-" فأعرض عنهم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ"الانعام 68

یہاں تک کہ وہ کسی اور کام میں نا لگ جائیں! 


آپ ان تمام آیات کو ان کے محل میں جاکر سیاق و سباق سے دیکھ لیں! آپ کے سوال کے بابت جواب میں کافی کچھ عیاں ہوجایے گا.


ثانیا:-غیرت صحابہ و مشاورت :


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھم کی غیرت دینی اور اہل ذمہ سے تعامل ملاحظہ کریں! 


"قال عمر رضي الله عنه:إياكم ورطانة الأعاجم،وأن تدخلوا على المشركين يوم عيدهم في كنائسهم فإن السخطة تتنزل عليهم.رواه أبو الشيخ الأصبهاني والبيهقي بإسناد صحيح"أخرجه عبدالرزاق في ((المصنف)) (1609)، وابن أبي شيبة في ((الأدب)) (52)، والبيهقي 1933) 

عجمیوں کے اسلوب اور لہجے مت سیکھو۔اور مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں ان کی عید کے روز مت جاؤ،کیونکہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے.


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد منقول ھے "لاتدخلواعلی المشرکین فی کنائسھم یوم عیدھم فان السخطة تنزل عليهم" (سنن بیھقی) 

مشرکین کے عید کے دن انکے کنائس میں داخل نہ ھوا کرو اس لئے کہ ان پر غضب نازل ھوتا ہے.چناچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد منقول ہے:

"من بنی ببلاد الأعاجم وصنع نیروزھم ومهرجانھم و تشبہ بھم حتی یموت وھو کذالک حشر معھم" {اقتضاء الصراط المستقيم 115/1}

جس نے نیروز مھرجان(یھود ونصاری کے عید کے دن کےنام) مناکرانکی مشابہت اختیار کی اور اسی حالت میں انکی موت ھوئ تو اسکا حشر انھی کے ساتھ ھوگا! 


گویا غیرت دینی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس دن کفریہ تہوار کی میں شرکت تو دور بلکہ ان جگہوں پر بھی از خود جانا غیرتاً جائز یعنی گوارا نہیں کرنا چاہیے،بلکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ممالک میں بیہودگی بھرا جشن خواہ تہوار کے نام و عنوان سے ہی کیوں نا ہو،اسکو سر عام،سر بازار و شتر بے مہار اجازت دینا ہی درست نہیں!

اگر عام اختلاط شراب و کباب ناچ گانا وغیرہ کی مجلس لگت ہے تو یہ ویسے بھی انتہائی سخت محل نظر ہے.(البتہ غیروں کے اپنےمخصوص عبادت خانوں اور انکے گھروں میں یہ سب ہو تو ہو، اسکی اجازت دی جائے گی )


ثالثا:-علاوہ ازیں کفار کے تہوار میں شرکت اور متاثر ہوکر مبارکباد کی ممانعت پر حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ سب متفق ہیں!


(فقہ حنفی: البحر الرائق لابن نجیم ج ۸، ص ۵۵۵، فقہ مالکی: المدخل لابن حاج المالکی ج ۲ ص۴۶۔۴۸، فقہ شافعی:مغنی المحتاج للشربینی ج ۴ ص ۱۹۱، الفتاویٰ الکبریٰ لابن حجر الہیتمی ج ۴ ص ۲۳۸۔۲۳۹، فقہ حنبلی:کشف القناع للبہوتی ج ۳ ص ۱۳۱)۔


فقہائے مالکیہ تو اس حد تک گئے ہیں کہ جو آدمی کفر کے تہوار پر ایک تربوز کاٹ دے وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کر دیا۔(اقتضاء الصراط المستقیم ص ۳۵۴)

آخر میں سو کی ایک وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا خوش اخلاق کون ہوسکتا ہے؟ 

تو اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی اور مدنی زندگی میں کبھی ایسا کچھ اشارے کنایے میں بھی کیا؟نہیں نا!


چناچہ یاد رہے آج مطلق جواز کے صادر فتوے تاریخ میں فقط دور زوال کی یادگار بن کر رہ جائیں گے،یہ اخلاق نہیں بلکہ مداہنت کا مظہر ہیں!


حسن اخلاق اور انسانی ہمدردی کے مواقع اور بھی ہیں وہاں آپ اسکا مظاہرہ کریں کویی منع نہیں کرسکتا!


اسی کے ساتھ آخر میں یہ بھی یاد رہے کہ کل ہماری ایک ایک حرکت activity کے متعلق پوچھ گچھ بھی ہوگی!جہاں یہ مداہنت بھی سوال کے گھیرے میں آیے گی۔ 


امید ہے آپ میری بات سمجھ گیے ہونگے! جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ میرا ایک مطالعہ اور اسکی روشنی میں ایک خیر خواہانہ مشورہ ہے.

___

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا . 

۱۸/۱۱/۲۰۲۳

📧askhttp://almuftitouqueer.in/

💌muftitmufti@gmail.com 

📞+919006607678

🥏+918789554895 



*اسکو صدقہ جاریہ جانکر  عام کریں*


تبصرے