اسلام میں عورت کا اصل مقام ایک غلط فہمی کا ازالہ

 



کیا_حدیث_کے_مطابق_اسلام_میں_عورت_ذات_منحوس_ہے


السلام علیکم ورحمت اللہ! 

مولانا صاحب میں ایک کمپنی میں جاب کرتی ہوں اور سائڈ سے ٹیچر بھی ہوں.بچیوں کے اندر تعلیم کو لیکر میں کافی ایکٹو رہتی ہوں.ایک دن اسی کام کے پیش نظر میں سفر پر تھی.چند تحریروں کو موبائل پر دیکھ رہی تھی.جبھی میری ایک دوست کا یہ اعتراض سامنے آیا کہ "تمہارے اسلام میں تو عورت اور لڑکی کو منحوس سمجھا جاتا ہے".

ہم نے اس سے انکار کیا تو اس نے چند احادیث بھیج دی.وہ سب میں آپ کو بھیج رہی ہوں.


اب سوال یہ ہے کہ اگر ان سبھی حدیثوں کو درست نہ جانوں تو مشکل،کیونکہ بچپن سے یہ سنتی آرہی ہوں کہ یہ ہمارے ایمان کا بنیادی سورس ہے اور اگر مانتی ہوں تو مسئلہ یہ ہے کہ پھر ایسی باتوں کو رہتے،دین اسلام کی خوبی اور "انسانیت کے لیے بہتر دین" کہکر اسکی تبلیغ یا آرگیو کسی سہیلی کے سامنے کس طرح کرپاوں گی؟


پلیز آپ اس سلسلے میں میری راہنمائی کریں!کیا یہ ساری حدیثیں واقعی درست ہیں؟انکی اصل حقیقت کیا ہیں؟پرائمری رسورس یعنی قرآن مقدس اس سلسلے میں کیا کہتا ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پریکٹیکل لائف کیا تھی؟


آپ کی ایک دینی بہن ن فاطمہ... ممبئی مہاراشٹر 

_________

وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!

سب سے پہلے تو آپ اچھی طرح سے ذہن میں یہ بٹھالیں کہ دین اسلام میں عورت سے متعلق نحوست یعنی "خیر سے یکسر خالی ہونے والی" جیسی کوئی بات نہیں ہے.یہ مغرب کی نقالی میں پھیلایا ہوا ایک بھرم Myth ہے. 


اسلام کی پرائمری ریسورس یعنی قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت تو دور ایک لفظ تک نہیں دکھایا جا سکتا؛جس سے یہ سمجھا جایے کہ عورت ذات فقط عورت ہونے کی وجہ سے منحوس ہوتی ہے.یعنی اس صنف نازک میں کوئی خیر نہیں ہوتا!یا اس سے وابستہ ہوکر ایک انسان خود کو بدبخت و بیکار اور نکما و ناکارہ بنا لیتا ہے.دین سے دور ہوجاتا ہے اور اپنی آخرت و عاقبت خراب کرلیتا ہے.یوں تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے. 


ہاں یہ ضرور جگ ظاہر ہے کہ اس صنف نازک کو پیدا ہونے کے بعد زندہ در گور ہونے سے بچانے،شادی کے بعد شوہر کی وفات پر اسکی چتا میں اسکی لاش سمیت ستی اور جل کر بھسم ہونے سے دور رکھنے اور انسانی نسل میں معزز و محترم بنانے کا جو راستہ ان عورتوں کو بالخصوص اور عام انسانوں کو بالعموم اسلام نے واضح کرکے دکھایا ہے،وہ فقط اسلام کا ہی خاصا ہے.


آپ سبھی مذاہب کا مطالعہ کرلیں. آپ اسی نیتجے پر پہونچیں گی کہ اس حوالے سے کوئی بھی دھرم یا مذہب، دین اسلام کی ہمسری نہیں کرسکتا!


اس کے بعد یہ عرض ہے کہ آپ نے جن احادیث کو بھیجا ہے.بلاشبہ وہ احادیث کی کتابوں میں ملتی ہیں اور بیان کرنے والے راویوں کی کڑی و سند (Chain) کے اعتبار سے یہ درست بھی ہیں.البتہ آپ انکے متون (Text) پر اگر غور کریں گی تو محسوس ہوگا کہ وہ سبھی احادیث تین طرح کے الفاظ سے سامنے آتی ہیں. اور وہ اپنے مفاہیم کے اعتبار سے معترض کے فہم کے بالکل الٹ و مغائر ہیں. 


اول:"إنما الشؤم" ...کہ بلاشبہ نحوست( خیر سے خالی ہونا) فقط تین چیزوں میں ہوتی ہے.دوم :"الشؤم" ... نحوست (خیر سے خالی ہونا) تین چیزوں میں ہوجاتی ہے. سوم:"ان کان یا ان یکن الشؤم" ...بالفرض اگر نحوست(خیر خالی ہونا) کسی چیز میں ہوتی،تو ان تین چیزوں میں ہوتی. 


پیش کردہ روایت اولی کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی ایک تفصیلی و تحقیقی روایت کافی چشم کشا باتیں ہمیں بتاتی ہیں.انکی زبانی آپ حدیث کی مستند و مشہور کتاب #مسند_احمد میں دیکھ سکتی ہیں.اس میں اسکی وضاحت موجود ہے،کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تین چیزوں کے بارے میں _بعض روایت کے مطابق یہودیوں_ اور بعض روایت کے مطابق _دور جاہلیت کے لوگوں کے_ نقطہ نظر کی تردید فرمارہے تھےکہ اللہ ان یہودیوں کو غارت کرے یہ کہتے ہیں کہ عورت، گھر مکان اور سواری میں نحوست ہوتی ہے.

تو اصل بات ان یہودیوں یا زمانہ جاہلیت والوں کے افکار کا بیان اور رد تھا، مگر ہوا یہ کہ اسے بیان کرنے والے صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس میں اس وقت آیے جب آپ اس واقعے کا آخری جملہ "عورت، گھر اور سواری میں نحوست ہوتی ہے" بول رہے تھے. یعنی وہ شروع کی بات نہ سن سکے، فقط آخری بات سن پایے اور یہ ادھوری بات انکی زبانی نشر ہوگئی! 


چناچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنھا باضابطہ اس بابت شدید غصے کااظہار کرتی نظر آتی ہیں.مندرجہ ذیل دو روایت ترجمہ سمیت آپ دیکھ سکتی ہیں. 


الف:"عن أبي حسان، قال دخل رجلان من بني عامر على عائشة فأخبراها أن أبا هريرة يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " الطيرة في الدار، والمرأة، والفرس " فغضبت فطارت شقة منها في السماء، وشقة في الأرض، وقالت: والذي أنزل الفرقان على محمد ما قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم قط، إنما قال: " كان أهل الجاهلية يتطيرون من ذلك" ( مسند احمد بن حنبل رقم 26034)"

ب:"عن عائشة أم المؤمنين  لم يَحفَظْ أبو هُرَيرةَ،لأنّه دخَلَ و رَسولُ اللهِ ﷺ يقولُ: قاتَلَ اللهُ اليَهودَ، يقولون:إنّ الشُّؤمَ في ثَلاثٍ: في الدّارِ، والفَرَسِ، والمَرأةِ، فسمِعَ آخِرَ الحَديثِ، ولم يَسمَعْ أوَّلَه" شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج المسند ٤٣‏/١٥٩)

یعنی تابعی جناب ابو حسان مسلم بن عبداللہ اعرجؒ سے یہ بات آن رکارڈ موجود ہے کہ قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اوران سے عرض کیا کہ: ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نحوست تو صرف عورت، جانور اور گھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بہت غصہ آیا اور ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ :اس ذات کی قسم جس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں فرمایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ یہ ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ ” ان چیزوں کو منحوس جانتے تھے اور(نحوست کے قائل ) ان سے برا شگون لیتے تھے۔“


اور دوسری روایت میں ہے کہ ابوہریرہ پوری بات محفوظ نہیں کر پایے،جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا،کیونکہ وہ اس وقت مجلس میں آیے میں جب آپ آخری بات فرمارہے تھے کہ( بقول انکے) نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے.یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ سنا ہی نہیں کہ یہ بات کس پس منظر میں کس کے حوالے سے کہی جارہی تھی.

گویا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا بتارہی ہیں کہ یہاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت کی سوچ بتا کر اسکی تردید کررہے تھے، نہ کہ اس بابت اپنی کوئی رایے {view} دے رہے تھے.البتہ ہوا یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بس آخری بات سنی،شروع کی بات وہ نہیں سکے،پوری بات سنتے تو اصل حقیقت انکے سامنے رہتی!

خلاصہ یہ کہ یہ فقط غلط فہمی {Misunderstanding} ہے.اور کچھ نہیں! That's all


اسی طرح روایت ثانیہ کے متعلق شراح حدیث اور ماہرین یہ کہتے ہیں کہ بسا اوقات ایک انسان ان تین بیان کردہ چیزوں میں مبتلا ہوکر خود کو نکما و ناکارہ بنالیا کرتا ہے.ان میں پڑ کر ان کا ایسا اسیر ہوجاتا ہے کہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا.دین سے دور ہوکر اپنی آخرت و عاقبت خراب کر لیتا ہے.تو مانو بظاہر یہ چیزیں اس کے حق میں منحوس بن جاتی ہیں. 


یہاں اگر غور کیا جایے تو اس بیانیے کے مطابق پتا چلے گا کہ منحوس فقط عورت ہی نہیں، بلکہ اگر کسی مرد صورت میں مبتلا ہوکر کوئی خاتون خود کو نکما و ناکارہ بنالیا کرتی ہے.اس کے چکر میں پڑ کر اس کا ایسا اسیر ہوجاتی ہے کہ پھر کسی کام کا نہیں رہتی.دین سے دور ہوکر اپنی آخرت و عاقبت خراب کر لیتی ہے، تو پھر یہ مرد بھی اس عورت کے لیے منحوس ٹھہرے گا.اور ایسی صورت میں آخر کوئی کہہ بھی کیا سکتا ہے؟ 


چناچہ روایت ثالثہ کی رو سے یہ بیان کردہ توجیہ بالکل بے غبار ہوجاتی ہے،کیونکہ اس میں ہے"مان لو Suppose that اگر کسی چیز میں انسان مبتلا ہوکر خود کو دیوانہ و ناکارہ بناسکتا ہے،دین سے دور ہوکر اپنی آخرت و عاقبت خراب کر سکتا ہے،تو وہ عورت، مکان اور سواری جیسی ہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں.

اب اسے تباہی کہیے یا نحوست کوئی فرق نہیں پڑتا. 


حاصل مدعا یہ ہے کہ یہاں ایک قیاسی انداز {Hypothetical way} میں بات سمجھایی جارہی ہے.نہ کہ کسی حقیقت کا اظہار کیا جارہا ہے.لہذا اسے اچھی طرح سے سمجھ لیں! 


جہاں تک آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی و عملی زندگی کا تعلق ہے،تو بلاشبہ آپ نے شادی بلکہ شادیاں کیں،ان ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو گھر مکان فراہم کیا،آپ کے پاس سواری بھی تھی،چناچہ سبھی سیرت نگار تفصیل سے بتاتے نظر آتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کتنی تھیں اور سواریاں کیا کیا تھیں آپ کا مکان و حجرہ کیسا تھا؟ 


آپ سوچیے نعوذ باللہ اگر یہ سب چیزیں فی نفسہ منحوس ہوتیں تو کیا آقا صلی اللہ علیہ انہیں اپناتے؟ اور امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ و التسلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سنت جانکر انہیں اپناتی؟ہرگز نہیں! 


یہی نہیں ان سب کے برعکس آپ ابن ماجہ کی روایت میں دیکھ سکتی ہیں کہ کس طرح انہی تین چیزوں کو باعث برکت بھی قرار دیا گیا ہے "مِخْمَرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لاَ شُؤْمَ وَقَدْ يَكُونُ الْيُمْنُ فِى ثَلاَثَةٍ فِى الْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ وَالدَّارِ » (سنن ابن ماجہ۔رقم الحدیث 1993،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :1930)

ترجمہ:مخمر بن معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے:’’نحوست کچھ نہیں ہے۔ اور برکت (بسا اوقات) تین چیزوں میں ہوتی ہے : عورت، گھوڑے اور مکان میں۔‘‘


آپ ہی بتائیں کیا یہاں انصاف کی بات یہ نہیں ہونی چاہیے کہ اگر اوپر والی احادیث سے غلط فہمی کی بنیاد پر کوئی اعتراض کربیٹھا تھا،تو اسے چاہیے تھا کہ اس آخری حدیث کی روشنی میں وہ اسلام کی واضح اچھائی و بڑائی کا اعتراف و اعلان بھی کرتا!؟ 


بہر حال آپ ان احادیث کو انکے مفاہیم کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور احادیث صحیحہ پر پورے اطمینان و شرح صدر {Highly Confidence} کے ساتھ اپنی سہیلیوں کے درمیان اسلام کی بات رکھیں!اور پر اعتماد ہوکر آرگیو {Argue} کریں!

یجزیک اللہ خیرا واحسن الجزأ!

دعاؤں میں یاد رکھیں!

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا

13/03/2023

📧muftitmufti@gmail.com 

📞+918789554895 

🥏+919122381549 


اسے سبھی اردو داں تک پہونچانے کی کوشش کریں!

تبصرے