اسلام اور میاں بیوی کے درمیان عدم مساوات؟
اسلام اور میاں بیوی کے درمیان عدم مساوات؟
مفتی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ!
میرے علم کے مطابق اسلام وقرآن میں شوهر كا بيوي كو اس کی غلطی پر مارنا درست ہے،لیكن بيوي اپنے شوہر کو اسکی غلطی پر نہیں مار سكتى۔ٹھیک ہے ناں؟
اب میرا سوال یہ ہے کہ آخر ایسی تفریق کيوں؟کیونکہ اسلام تو مردو عورت میں مساوات کا قائل ہے۔اب اگر کسی نن مسلم کے ساتھ ہماری بحیثیت مسلمان ڈیبٹ ہو تو اسے کیسے جسٹیفائی کر سکتے ہیں؟بطور خاص اس وقت جب وہ یہ کہے کہ کیا اسلام میں یہ معاشرتی عدم توازن نہیں ہے؟
براہ کرم آپ اس پر وقت نکال کر لکھنے کی زحمت کریں! دوبارہ یاد دہانی کرا رہی ہوں!
امید کہ توجہ دیں گے۔
آپ کی ایک مسلم بہن......علی گڑھ یوپی انڈیا
------------
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری بہن آپ کا یہ سوال در اصل اس مغربی فکری بنیاد پر قائم ہے،جس کے مطابق مغربی آزاد معاشرے میں عورت و مرد یا میاں بیوی دونوں ہر امور میں یکساں و آزاد ہوتے ہیں۔ کسی کے تئیں کسی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی!
لہذا برابری والے فارمولے کے مطابق ایسے آزاد معاشرے میں شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو انکی غلطیوں پر یا تو مارنے کی نوبت ہی نہ آئے یا پھر دونوں ایک دوسرے کو مار سکیں.کوئی مسئلہ نہیں!
بلاشبہ اسلام میں یہ فارمولا فیل ہوتا نظر آتا ہے۔جس پر کوئی بھی معترض اعتراض کرسکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں؟
یہی نہیں مذکورہ بحث میں "مار اور مارنا" یہ بھی عام وحشیانہ و تازیانہ والا اسلام کے سر یکسر سمجھ لیا گیا ہے؛جب کہ بیوی کے اندر بگاڑ کے نتیجے میں شوہر کو اسکی اصلاح کی غرض سے دین اسلام سب سے پہلے زبانی طور سے سمجھانے بجھانے،نہ مانے تو پھر گھر میں رہتے ہوئے شب میں بیوی سے دوری اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ پھر بھی اصلاح ہو نہ تب جاکے اسکے بعد یہ اصلاحی ہلکی پھلکی تادیب و ضرب کی آخری و ناگزیر صورت اختیار کرنے کہتا ہے۔
تادیب و ضرب کی آخری صورت در اص اس فلسفے پر مبنی ہے کہ طلاق ہو، گھر ٹوٹ جایے،بچے بکھر جا ئیں،سب ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں،اس سے بہتر ہے کہ شوہر ہلکا پھلکا تادیبی و اصلاحی اقدام کرلے اور بیوی برداشت کرکے گھر گرہستی بچالے!
یاد رہے اس اصلاحی اقدام میں بھی وحشیانہ مارپیٹ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے؛بلکہ وہ نیت سے لیکر عمل کے مرحلے تک اس قدر شرطوں سے مشروط ہے،کہ دنیاوی کسی قانون و دستور یا مذہب ودھرم میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مثلاً پہلی شرط شوہر کی نیت بیوی کی اصلاح ہو،انتقام و تذلیل کا ارادہ نہ ہو!
دوسری شرط یہ کہ چہرے پر مارنا نہ ہو،چہرے کے علاوہ قابل برداشت جگہ ہو،گالم گلوچ نہ ہو!
تیسری شرط یہ کہ چہرے کے علاوہ جسم میں قابلِ برداشت دیگر جگہ بھی چوٹ اور ضرب اتنی ہی ہو کہ اسکے نشانات نہ ابھر سکیں!
الغرض تادیبی و اصلاحی آخری کارروائی میں بھی یہ ساری شرطیں ملحوظ خاطر ہونی چاہئیں!
آپ ان ساری شرطوں کو قرآن کریم کے اندر سورہ نساء آیت ۳۴ نیز روایات { ترمذی:روایت ٢١٤٢} {ابوداؤد:روایت ١١٦٣} میں بالتفصیل دیکھ سکتی ہیں۔
ان بیان کردہ شرط و تفصیل سے ہٹ کر کوئی شوہر اگر منمانہ اقدام کرتا ہے،تو یہ اسکی غلطی ہے۔اسلام و قرآن اس سے بالکلیہ بری ہے۔
جب آپ ان باتوں کے ساتھ اس پہلو پر نگاہ ڈالیں گی تو معلوم ہوگا کہ کئی ساری غلط فہمیاں اس بابت ایسی پال لی گئی ہیں کہ اس پر سطحی سوچ رکھنے والا انسان مغربی فکر وفلسفے کی تبلیغ سے متاثر ہوکر اعتراض کر ہی بیٹھے گا۔حالانکہ یہ سارے مفروضے و مغربی فارمولاجات اپنے آپ میں کئی لحاظ سے غلط ہیں۔
------
اب سوال یہ ہوگا کہ ٹھیک ہے بیوی کی غلطی پر شوہر مشروط اصلاحی اقدام کرسکتا ہے، تو آخر مساوات کے نتیجے میں بیوی بھی شوہر کی غلطی پر مشروط ہی سہی اصلاح کے نام سے اقدام کیوں نہیں کر سکتی؟
تو جواب سے قبل یہ یاد رکھیں کہ "مساوات" کہیں بھی مطلق مطلوب و معمول نہیں ہے۔خواہ وہ دینی و دنیوی قانون کی نگاہ میں ہو یا پھر سوسائٹی و سماج کی نگاہ میں!
چنانچہ قرآن و سنت سے آگاہ انسان یہ جانتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق مرد و عورت یا میاں بیوی کے درمیان بحیثیت "انسان" بلاشبہ برابری ہوتی ہے،چنانچہ بحیثیت انسان اور انسانی ضرورت کے مطابق اسلامی ماخذ قانون و سر چشمہ ہدایت یعنی قرآن و سنت کے اندر انکے ساتھ یکساں سلوک کی ہدایات موجود ہیں۔اس سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا!
تاہم عورت بحیثیت "صنف نازک" فطری طور پر الگ حقوق ورعایت کی متقاضی ہوتی ہے اور مرد صنف مضبوط الگ ذمہ داری و انانیت کے حامل ہوتے ہیں۔لہذا جسمانی و حیاتیاتی،سماجی و شرعی دائرے کے اندر ہر لحاظ سے انکے مابین برابری نہیں ہوتی؛بلکہ انکے فطری تقاضے کے پیش نظر انکے مابین فرق رکھتے ہوئے انہیں پابند شرع کیا گیا ہے،کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے!
مذکورہ فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں مرد و شوہر بیوی کے تمام تر اخراجات وتحفظات کا ذمہ دار ہوتاہے۔ یوں دراصل شوہر کی حیثیت ایک باس Boss و مینیجر اور گارجین و ٹیچر کی ہوتی ہے۔اور ظاہر ہے باس و مینیجر اپنے ہی جیسےتنخواہ یافتہ مگر کم ذمہ داری و کم یافت والے ورکر کو غلطی پر تنبیہ کر سکتا ہے۔سدھار نہ کرنے پر اسے ملازمت سے برطرف کر سکتا ہے۔ ایک ٹیچر یا گارجین اپنے ہوشیار شاگرد اور بچے بچیوں کو ڈانٹ اور ضرورت پڑنے پر ہاتھ بھی لگا سکتا ہے۔
جب کہ ایک ملازم اپنے باس کے ساتھ یا بچہ اپنے گارجین و ٹیچر کے ساتھ انکی غلطی پر ایسا نہیں کر سکتا۔ہاں انکے سدھار کے لیے انکے اوپر والے ہوتے ہیں۔اور وہ انہیں تنبیہ کرتے ہیں۔ٹھیک یہی معاشرتی فارمولہ اسلامی نقطہ نظر سے میاں بیوی کے درمیان فٹ بیٹھتا ہے۔آگے اسکی تفصیل آرہی ہے۔
حالانکہ یہاں دیکھا جائے تو اوپر بیان کردہ مثال میں کمپنی کے اندر مینیجر و ورکرز "انسان و ملازم" ہونے میں، یا ٹیچر و شاگرد "انسان" ہونے میں پورے پورے "برابر" ہوتے ہیں،مگر پھر بھی فرق کام و ذمہ داری کا ہوتا ہی ہے۔ اور انکے مابین تنبیہ کا خانہ درجہ بندی کے اصول سے بندھا ہوا ہے۔
ٹھیک ایسا ہی کچھ معاملہ بحیثیت "انسان" برابر ہونے اور بحیثیت "صنف نازک" و "صنف مضبوط" الگ الگ ہونے میں میاں بیوی کے کیس {Case} میں بھی ہوتا ہے۔جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا!
چنانچہ آج بھی مطلق برابری کے دعوے کے ساتھ صنفی نزاکت و کمزوری کے پیش نظر "Ladies first " کا نعرہ جگہ جگہ دیوار و جدار پر نظر آجاتا ہے۔
بہرحال جیسا کہ عرض کیا گیا مغربی معاشرہ شوہر کے حق میں ایسی سبھی ذمہ داری و پابندی خواہ اخراجات والی ہو یا تحفظات والی ان سبھی کو قید قرار دیتے ہوئے ان سب سے شوہر و بیوی کو ایک دوسرے سے آزاد رکھتا ہے۔وہاں عورت اپنی ذمہ دار خود ہوتی ہے۔وہ اپنے اخراجات کا بندوبست از خود کرتی ہے۔
اب سوچیے کہ جب ایسا کسی مادر پدر آزاد معاشرے میں ہوگا تو پھر شوہر کی غلطی پر بیوی کا اسے سدھار کی نیت سے ہاتھ اٹھانا تودور، شوہر کا بھی بیوی کی غلطی پر سدھار کی غرض سے ہاتھ اٹھانا قطعاً درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا!
یہ اور بات ہے کہ ایک خاتون کے حق میں جہاں اسکی صنفی نزاکت کے پیش نظر انسانی و اسلامی نقطہ نظرسے یہ سرا سر ظلم و زیادتی ہے۔وہیں صنف مضبوط یعنی مرد کے حق میں اسکی خانگی امور، مردانگی نیز غیرت کا جنازہ نکال کر اسے پریشان کرنے والا یہ اقدام کسی مصیبت و آفت سے کم نہیں!
آپ کو اس حوالے سے مغربی ادارے کا ایک چشم کشا سروے رپورٹ کا لنک بھی فراہم کردیا جاے گا۔آپ اسے دیکھ لینا!
لہذا ہم آپ دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ آئے دن ایسی سوچ سے پریشان افراد خواہ عورت ہو یا مرد دامنِ اسلام سے وابستہ ہوکر سکون و اطمینان کے متلاشی ہواکرتے ہیں۔
اب بھی اگر آپ سے کوئی مغربی فکر کا دلدادہ اس پر سوال کرے، تو میرے خیال سے آپ کو اسے اسکے بیان کردہ شرطوں و چوکھٹوں کی روشنی میں جسٹیفائی کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے!
نیز اگر کوئی نن مسلم آپ سے اس پر سوال کرے تو انہیں رام چرتر مانس میں تلسی داس کا بیان کردہ یہ رامائنی شرح سنا دیں "ڈھول،گنوار، شودر، پشو،ناڑی+سکل تاڑنا کے ادھیکاری" کہ ڈھول وجانور کی طرح ناڑی و عورت کو پیٹا جانا چاہیے کہ یہ اسی کے مستحق ہیں۔ دیکھیے{رام چرتر مانس باب سندر کانڈ صفحہ ۱۱۵}
یہ شرح سنانے کے بعد اسلامی شرطوں کی روشنی میں ان سے پوچھیں کہ آیا وہ اس بابت کیا کہتے ہیں!
----
اسلام میں چونکہ بیوی کی غلطی پر اصلاح و سدھار کی غرض سے اسے شوہر ہلکی پھلکی مار مار سکتا ہے۔اب اسے سزا جان کر اعتراض کیا جاتا ہے،تو جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ اسکی بھی اجازت احادیث میں کچھ ایسی شرطوں کے ساتھ ہے کہ ان شرطوں کے ساتھ اگر غور سے ان کا جائزہ لیا جایے تو معلوم ہوگا کہ وہ "مار" شوہر کی طرف سے بیوی کے حق میں بغرض اصلاح "سزا" کے بجائے ایک قسم کا "الفت وچاہت اور پیار و اقرار" ہی نظر آتا ہے۔
اورجہاں تک اس پس منظر میں برابری کی بات کرتے ہوئے شوہر کی غلطی پر بیوی اسے کیوں نہیں مار سکتی؟ اس سوال کے جواب کا ہے،تو یہ یاد رکھیے کہ یہ کئی وجہوں سے صنف نازک یعنی بیوی کے حق میں بہتر ہے.
اولا: یہ کہ ردعمل میں صنف مضبوط یعنی شوہر کے ہاتھوں اسکے برے نتائج مثلاً قتل وغیرہ جیسے بھیانک اقدامات کی نوبت نہ آجائے!
ثانیا:کچھ لمحے کی غلطی کے ازالے کے چکر میں پڑ کر کہیں طلاق کی نوبت نہ آجائے اور میاں بیوی کا رشتہ ہی جاتا رہے!اور پھر عورت بیچاری آزاد معاشرے میں اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہوس پرست جنسی درندوں کا شکار یا کسی اور کی لعن طعن کا ہدف نہ بن جائے!
ثالثاً:اگر شوہر غلطی کرتا ہے تو قرانی ہدایت کے مطابق دونوں کے گھر والے بیٹھ کر اسکا بہتر طے تصفیہ اچھے ماحول میں کر سکتے ہیں۔دیکھیے {سورہ نساء آیت ۳۵}
رابعا: اگر گھر والوں سے یہ مسئلہ حل نہ ہو تو سماج یا انصاف پسند عدالت اس پر کارروائی کرکے صنف نازک یعنی بیوی کو انصاف دلا سکتا ہے۔
الغرض مقصود اصلاح ہے،جسکا دروازہ اسلام نے بہتر طریقے سے کھول رکھا ہےہے، جہاں سے اصلاح بھی ہو جاتا ہے اور کسی قسم کا بگاڑ بھی نہیں ہوتا!
اور اگر ہرحال میں بیوی کو شوہر سے اسکی غلطی پر انتقام لیکر ہی من کو تسلی ملتی ہے،تو رب کریم نے اسکا بھی انتظام کروا رکھا ہے۔
چنانچہ رب کریم نے بیوی کو اسکی صنفی نزاکت کے پیش نظر طبعاً خلقی وفطری طور پر وہ وہ ادا عطا کیے ہیں کہ وہ اگر چاہے تو " بیوی والے ناز و انداز " کے راستے سے اپنے شوہر کو اپنی ناز نخرے سے بخوبی پیار بھرا سزا دے سکتی ہے اور دیتی ہے۔حدیث نبوی میں اچھے اچھے ہوشیار و پختہ کار کی عقل کو غائب کرکے دیوانہ بنا دینے والا ان بیویوں یا خواتین کو یونہی نہیں خطاب کرکے کہا گیا ہے۔
حدیث نبوی کے الفاظ ہیں "مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ"دیکھیے صحیح بخاری جلد اول :كتاب الحيض {حدیث 304}
میری بہن ان ساری نکات کو آج گہرائی سے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔جب آپ ان امور پر غور کریں گی،تو ان شاءاللہ اسلامی معاشرتی توازن اور اس کا حسن آپ کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہو جایے گا۔
آپ کی دوبارہ یاد دہانی کا بہت بہت شکریہ!
دعاوں میں یاد رکھیں !
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈایریکٹر المرکز العلمی للافتا و التحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضا والافتا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
10/09/2023
13/02/1445
t.me/fatawatouqueeri
muftitmufti@gmail.com
+918789554895
+919006607678
نوٹ:ان باتوں کو آج ہر پلیٹ فارم سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔
ماشاء اللہ حضرت بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریںVery good explanation
جواب دیںحذف کریںشکرا جزیلا اخی الکریم
حذف کریں