اہل کتاب سے شادی تو عید پر مبارکبادی کیوں نہیں؟:مفتی توقیر بدر القاسمی الازہری
عیسائی خاتون سے شادی درست اور انکا ذبیحہ حلال،تو پھر کرسمس کے موقع سے انہیں مبارکبادی دینے سے پرہیز کیوں؟ 👇
======
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
مولانا صاحب آپ کیسے ہیں؟ آپ کا پاؤں فریکچر ہوگیا. یہی سن کر بڑا افسوس ہوا. ہم سب آپ کی جلد از جلد صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں!
حضرت! ہم دوستوں کا اپنا ایک گروپ ہے، اس پر آپ کی تحریر بھی ہم دوست لوگ شئیر کرتے رہتے ہیں. اسی گروپ پر کل کرسمس کے موقع سے مبارک بادی کے حوالے سے ڈسکس ہورہا تھا.ایک گروپ کا ماننا تھا کہ بھلے عیسائی شرکیہ عقائد رکھتے ہیں،اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا کھانا پاکیزہ ہے اور اہل ایمان کیلئے حلال ہے.عیسائی شرکیہ عقائد رکھتے ہیں اس کے باوجود اللہ نے فرمایا ہے کہ اہل ایمان کا ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے.
(سورۃ المائدة - آیت 5)
اسی طرح وہ کہتے رہے عیسائی شرکیہ عقائد رکھتے ہیں اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ مسجد نبوی میں اپنی عبادت کریں اور عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر مشرق کی جانب چہرہ کر کے اپنی عبادت کرتے ہیں۔
(السيرة النبوية ج 2 / 224)
ان نکات سے یہ ثابت کیا جاتا رہا کہ جب عیسائی شرکیہ {Polytheism} عقائد رکھتے ہیں،تو ظاہر ہے کہ ان کی عبادت توحید {Monotheism} پر مبنی نہیں ہو سکتی،انہوں نے مسجد نبوی میں اپنی عبادت شرکیہ عقائد کے مطابق ہی کی ہو گی؛لیکن اس کے باوجود اللہ کے رسول اور صحابہ کے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا.اور آج یہ آواز اٹھائی جاتی ہے کہ انکو کرسمس کے موقع سے مبارکباد دینے سے بچو ورنہ عقیدہ توحید پر ضرب پڑے گا.آخر یہ کیا معاملہ ہے؟
آپ براہ کرم اس سلسلے میں ہم دوستوں کی راہ نمایی فرمائیں!
جزاکم اللہ خیرا
نبیل، افروز، ساحل، ممشاد،اورنگ زیب وغیرہم
-----------
وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
الحمد للہ اب پاؤں کے درد میں افاقہ ہے.پلاستر چار ہفتے ابھی اور مزید رہے گا.دعا کرتے رہیں رب کریم پہلے سے بہتر کردے آمین!
سوال کے طور پر آپ نے جو باتیں لکھ بھیجی ہیں اس کے حوالے سے عرض ہے کہ آپ کے جن دوستوں نے اہل کتاب کی خواتین سے نکاح اور انکے ہاتھوں ذبیحہ حلال نیز مسجد نبوی میں انکی عبادت کرنے سے "کرسمس کے موقع پر مبارکبادی" دینے کا نکتہ کشید کیا ہے.وہ شاید چند باتوں کو نظر انداز کرتے ہویے انہیں آپس میں خلط ملط کرگیے ہیں.
مثلا انہوں نے "معاشرت" {Social contacts & contracts} اور "عقائد" {Faith & Believe} دونوں کو خلط ملط کرکے ایک کردیا اور پھر ان پر یکساں حکم لگادیا. جب کہ انکے درمیان بڑا فرق ہے.
اسی طرح انہوں نے ایک موجود و محسوس اور معقول حقیقت "شادی بیاہ، ذبیحہ اور مسجد میں عبادت کی اجازت " پر ایک غیر معقول و غیر موجود مفروضہ "تثلیث و ابن خدا ہونے " کو یکساں سمجھا اور ان پر یکساں حکم لگانا مناسب جانا،جبکہ ان کے مابین بھی زمین آسمان کا فرق ہے.
یہی نہیں انہوں نے جب اتنا کچھ قرآن و سیرت سے بحوالہ پیش کیا،تو بہتر تھا کہ وہ" کرسمس کے موقع سے مبارکبادی" کا بھی کوئی ایک واقعہ و حوالہ براہ راست قرآن مجید و سیرت طیبہ سے پیش کردیتے،تاکہ مزید عقلی بحث و استدلال اور دوستانہ ضد و کد کی نوبت ہی نہ آتی.حتمی بات صاف شفاف طریقے یکدم ایک نتیجے پر پہونچ جاتی اور آپ کا اور ان کا وقت و انرجی دونوں بچ جاتا.
خیر!
کرسمس کے حوالے سے دو باتیں یاد رکھیں!
اول:"ولادت و یوم ولادت عیسٰی علیہ السلام" یہ نقطہ نظر بنا کسی لاگ لپیٹ کے بالکل درست ہے. وہ برتر و بزرگ بندہ خدا تھے اور بحیثیت نبی بشر و انسان تھے.لہذا انکی ولادت بھی ہوئی اور نبی بھی بنے.پھر آسمان پر اٹھا لیےگیے.یہ عین اسلامی عقیدے کے مطابق ہے.البتہ کب پیدا ہویے،اس کی تاریخ و تعیین خود عیسائی فرقوں اور انکے ماہرین کے درمیان میں نہ ہوسکی.لہذا پچیس دسمبر پر اصرار یہ از خود غلط ہے.
چناچہ اب اگر کوئی عیسائی مذکورہ حقائق کو سمجھ بوجھ کر جشن مناتا ہے،تو منایے،اور کوئی مسلم انہیں مبارکبادی دینا چاہے تو دے،یہ راقم کے نزدیک ایسا ہی ہوگا جیسے اسلام کے متبعین میں عید میلاد النبی کے نام و عنوان سے جشن منانے والے منایا کرتے ہیں اور انکے درمیان مبارکبادی کا تبادلہ ہوتا ہے.
دوم:-حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کی اولاد ماننا، بیٹا کہنا تین خدا میں سے باضابطہ ایک خدا جاننا، (دیکھیے تفصیل و فلسفہ:تثلیث و اقنوم ثلاثہ کے حوالے سے) اور پھر اس خدا کی پیدائش بھی ماننا اور اس کا دن منانا یہ سراسر عقیدہ توحید و عقل کے خلاف اور خود عیسائیت و دیگر الوہی دین کی نگاہ میں باطل نظریہ ہے.
سوچیے کیا خدا بھی جنم لے سکتا ہے؟ خدا بھی کیا کسی کا بیٹا ہوسکتا ہے؟کیا خدا بیٹا ہوکر باپ خدا کے بالکل برابر اور اسکے شریک ہوسکتا ہے؟کیا خدا اتنا عاجز بھی ہوسکتا ہے کہ دشمنوں کے ہاتھوں یا از خود سولی پر چڑھ جایے اور موت سے دوچار ہو؟ اسی طرح تین ایک اور ایک تین یہ کون سی ریاضی کے فارمولے میں فٹ بیٹھتا ہے؟العیاذ باللہ!
چناچہ خود پوری کی پوری عیسائیت کبھی اس غیر عقلی باطل نظریے و من گھڑت عقیدے پر متفق نہیں رہی ہے.آپ کو انجیل برناباس مل جایے تو اس کا مطالعہ کریں! اسی طرح مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ کی کتاب "اظہار حق" مل جایے تو اسکا بھی لازما مطالعہ کریں!
اسی طرح اوپر جو معاشرت {Social contacts & contracts} اور عقائد {Faith & Believe} کے درمیان فرق کی اجمالاً بات رکھی گئی ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ایک موحد مسلم کی شادی اہل کتاب کی ایک عورت سے ہوتی ہے،تو اسے ہم مسلم موحد فقط اپنی عقل سے درست قرار نہیں دیتے ہیں.یا انکے ہاتھوں سے ذبیحہ حلال قرار پاتا ہے،تو اسے بھی ہم فقط اپنی عقل سے حلال نہیں کہتے،بلکہ قرآن کریم نے انہیں درست قرار دیا ہے اس لیے ہم انہیں درست جانتے ہیں.
لہذا سوال یہ ہے کہ کیا کرسمس کے حامی اور اس موقع سے مبارکبادی پیش کرنے کے طرفدار حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حوالے سے عقیدہ تثلیث و ابن خدا ہونے کا کوئی ایسا ثبوت قرآن مقدس سے دکھا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں!
بل کہ انکے برعکس قرآن کریم نے "خدا کی اولاد ماننے والوں کی نہ فقط تردید کی ہے،بلکہ شد و مد سے انہیں قابل مذمت گردانا ہے.عقیدہ شرک {polytheism} کو "سب سے بڑا ظلم" قرار دیا ہے.خلاف عقل باتوں کو تسلیم کرنے اور اس پر ریجھنے والوں کو جانور بلکہ اس سے بدتر قرار دیا ہے.
یہی نہیں آپ غور کریں اس معاشرتی امور میں بھی یہ فرق رکھا گیا ہے؛کہ آپ انکی خواتین اپنے نکاح میں لاسکتے ہیں،مگر انہیں اپنی خواتین نہیں دے سکتے،آخر ایسا کیوں؟ اسی لئے ناں تاکہ اس کے عقد نکاح میں جاکر زیر دست نہ ہوجایے اور مبادا پھر کہیں خواتین اسلام اپنا عقیدہ {Monotheism} توحید نہ مسخ کر بیٹھیں!اللھم احفظنا منہ!
اسی کے ساتھ ساتھ عقیدے کے حوالے سے یہ واضح ہے کہ جو خواتین آپ کے نکاح میں آتی ہیں؛وہ فقط منکوحہ بننے سے اسلام کی پیروکار اور جنت کی حقدار نہیں بن جاتیں، بلکہ اس واسطے انکی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ کی ختم رسالت و ختم نبوت کا اقرار اور توحید باری تعالیٰ کا ایمان ناگزیر ہے یہ اسی پر موقوف رہتا ہے.
اسی طرح ذبیحہ ایک اہل کتاب کا ہی؛کیا قرآن مجید نے ہی کلب معلم (سدھایا ہوا کتا)کے منھ میں آیے ہویے حلال چرند پرند کو بھی حلال نہیں ٹھہرایا ہے؟
تو کیا یہاں بھی انکے حق میں قیاس و نظیر تلاشنے اور دلائل تراشنے کی زحمت گوارا کریں گے؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں!
اسی طرح جب مسجد نبوی میں انہیں از راہ اخلاق وسعت فراہم کرتے ہویے اپنی زمین پر عبادت کی اجازت دی جاتی ہے،تو وہ انہیں فقط اپنی عبادت ادا کرنے کا مکلف جانا جاتا ہے. مگر وہیں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی نہ تو اس میں شریک ہوتے ہیں! نہ انکی اس طرز و ادا پر مبارکباد و تحسین پیش کی جاتی ہے!
وہاں اس وقت فقط انکی مذہبی آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے،اور انہیں اسکی آزادی دی جاتی ہے.چناچہ آج بھی انہی ہدایات کی روشنی میں مسلم حکمران انکو یہ اسپیس دیتے ہیں اور دینے کے پابند ہیں.
تاہم انکی مذہبی آزادی کے ساتھ انکی عبادت و مذہبی رسوم میں کوئی شریک نہیں ہوتا،کیونکہ اگر ایسا ہونا تسلیم کیا جایے،تو پھر تبلیغ اسلام کی اب تک کی ساری کوشش و محنت ہی کالعدم قرار پایے گی!
لہذا خلاصہ کلام کے طور پر یہ ذہن میں رہے،کہ قرآن کریم نے معاشرت اور عقائد کے درمیان جو اجازت و ممانعت جواز و فرق کی شکل میں باقی رکھی ہے،اسے ہر حال میں ملحوظ رکھیں!ایک کو دوسرے سے گڈ مڈ نہ ہونے دیں!عقائد کے معاملے میں قرآن و سنت متواترہ سے اوپر جاکر بیجا عقل نہ لگائیں!عقائد کی نزاکت و حساسيت کو ہر حال میں ملحوظ رکھیں!
ھذا عندی والصواب عنداللہ!
آپ سبھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں!
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزأ
آپ سب کا خیر اندیش!
توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا.
27/12/2022
💌muftitmufti@gmail.com
📞+918789554895
🥏+919122381549
اسے سبھی سے شئیر کریں!دینی مسائل کو عام کرنا بھی صدقہ جاریہ ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں