بیماری کی حالت میں نماز خدا سے رابطہ:مفتی توقیر بدر القاسمی الازہری

 



بیماری کی حالت میں نماز کی پابندی!کیا غیر معقول رویہ ہے؟


السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ! 

مولانا آپ خیریت سے ہیں؟ 

مولانا صاحب! آپ سے دو باتیں معلوم کرنا چاہتی ہوں.

١-میرے والد صاحب جو کہ نمازی ہیں انکا آپریشن ہوا.وہ ایک دن تقریباً بے ہوش رہے.البتہ ہوش میں آنے کے بعد ایک ہفتہ تک وہ نہانے دھونے سے معذور رہے.تو کیا اس درمیان کی نمازیں ان پرقضا کرنا ہونگی؟


٢_یہ جو کہا جاتا ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں معاف نہیں.تو کیا یہ ایک کمزور و بیمار بلکہ بے ہوش بندے پر زیادتی و بے جا قسم کی زبردستی والی پابندی نہیں؟ 


براہ کرم آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما دیں! 


{نوٹ:یہ دوسرا سوال دراصل میرے ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے کزن ہوتے ہیں وہ اٹھاتے رہتے ہیں،انکی ذہنیت و سوچ {Thinking} کچھ ایسی ہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آرام سے فرصت میں انسان ٹھیک ٹھاک نارمل {Normal} ہو تو نماز پڑھے ورنہ پہلے ریلیکس {Relax} ہولے!

یہ کیا کہ جیسے تیسے رہو، وقت پر نماز میں کھڑے ہوجاو نیت کرو اور لگ جاو!یہ تو غیر معقول زبردستی والا رویہ ہے}


سو اسی کے پیش نظر آپ سے درخواست ہے کہ آپ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں!ہمارے رشتے دار میں ایک مولانا صاحب ہے.انہوں نے آپ کا یہ نمبر دیا ہے. 

صالحہ...زبیر کلکتہ

==========

وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ!

الحمد للہ سبھی خیر و عافیت سے ہیں.

آپ کے دونوں سوالوں کے جوابات لکھنے سے قبل راقم دو باتیں بطور (Premises ) مقدمہ آپ سے عرض کردینا مناسب سمجھتا ہے،تاکہ منطقی {Logically} طور پر درست نتیجے{ Better Result} تک آپ کو پہونچنے میں آسانی ہو. 


اول:یہ کہ ساری کاینات {Whole Universe} کا خالق و مالک ایک اللہ ہی ہے.اس مکمل کاینات کے جاری و ساری رکھنے والے سارے نظام انہی کے قبضہ وقدرت میں ہے.اپنی مخلوق کو بیمار بھی وہی کرتا ہے اور وہی شفایاب بھی کرتا ہے.دوا علاج یہ سب فقط وسیلے کے درجے میں ہیں.یہ دوا علاج صحت و شفا کے ضامن ہرگز نہیں! 


دوم: یہ کہ نماز دراصل عبادات اصلیہ کے ساتھ ساتھ عابد و معبود یعنی بندے اور اسکے رب کے درمیان ایک رابطہ اور ملاقات کا ذریعہ بھی ہے.آپ قرآنی آیات " اقم الصلاۃ لذکری"(سورہ طہ آیت: 14)اور "الا بذکر اللہ تطمئن القلوب " (سورہ رعد آیت: 28)کو مع تراجم و تفسیر دیکھ سکتی ہیں.


چناچہ بندہ اس ملاقات میں اپنے رب کے حضور قیام و رکوع اور سجود و تحیات کے بعد اپنی ساری دکھ درد و حاجات پیش کرتا ہے.اور رب کریم اپنے اس عاجز ملاقاتی بندوں کی سنتا ہے.اور پھر اسکی شفایابی کا سامان فراہم ہوتا ہے. جب ایسا ہوتا ہے تو اسے اسکی حقیقت سمجھ میں آتی ہے.ایسا اس لیے کیونکہ حدیث نبوی میں اپنے بچوں پر شفیق ایک ماں سے زیادہ، بندوں پر مہربان و مشفق اس رب کریم کو ہی بتایا گیا ہے.

آپ صحیحین کی یہ روایت دیکھ سکتی ہیں:

"قدِمَ على النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سَبيٌ،فإذا امرأةٌ من السبيِ قد تحلُبُ ثَديَها تَسقي،إذا وجدَتْ صبيًّا في السبيِ أخذَتْه، فألصقَتْه ببَطنِها وأرضعَتْه، فقال لنا النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم:( أترَونَ هذه طارحَةً ولدَها في النارِ ).قُلنا:لا،وهي تقدِرُ على أن لا تطرَحَه،فقال:(لَلّهُ أرحَمُ بعبادِه من هذه بولَدِها).(صحيح البخاري:5999، صحيح مسلم:2754) 

چناچہ جب یہ ثابت ہوا کہ رب کریم ہی بیمار کو شفادیتا ہے اور اس رب سے قربت حاصل کرنے کے لیے نماز ایک بہترین عبادت ہے،تو پھر کسی بیمار نمازی کیلیے نماز آخر جبر و زبردستی کی پابندی کیسے ہوسکتی ہے؟یہ تو سراسر اس کے لیے نعمت {Totally boon}و رحمت ہے. 

پھر یہ کہ کوئی اگر یہ سوچے کہ نماز میں ہرحال میں کھڑا ہی ہونا ہے،تو ایسا کہنا اور سوچنا اس کا از خود غلط ہے؛کیونکہ نماز کی ادائیگی کے واسطے بیمار نمازی کی سہولت کے پیش نظر ہر ممکن سہولت و صورت کھڑے، بیٹھے، لیٹے یہ سبھی قابل قبول ہیں. 


اسے آسانی سے سمجھنے کے لیے ایک تمثیل بھی پیش کی جاتی ہے.

آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب ایک مریض کو سانس کی دقت ہوتی ہے تو پھر اسے آکسیجن {Oxygen} لگایا جاتا ہے.اسکے لیے سانس کی نلی کے اندر ناک کے راستے پائپ بھی ڈالی جاتی ہے.اور اسے ڈاکٹر کے مشورے پر شوق سے اپنایا جاتا ہے،تاکہ سانس کا جسم و جان سے رشتہ بحال و برقرار رہے. 


اب اس وقت کوئی ناواقف دیہاتی یہ کہنے لگے کہ یہ تو عجیب بات ہے؛کہ ایک انسان کو سانس لینے میں پریشانی ہے،اور یہ ڈاکٹر اس کی ناک میں پائپ ڈال کر اسے مزید پریشان کر رہا ہے.یہ کیسی زبردستی ہے؟اسے کم از کم ٹھیک تو ہونے دو!

تو کیا اس وقت اس دیہاتی کی بات آپ مانیں گی؟نہیں ناں!بلکہ اسے حقیقت حال سے آگاہ کریں گی.اسی طرح وبا کے زمانے میں گورنمنٹ کی طرف سے صحت و حفاظت کے پیش نظر ٹیکہ کاری لازمی ہوتی ہے،تو کیا اسے پریشان کن وبا کے عالم میں ایک پریشان کن زبردستی کا رویہ کہیں گی؟ظاہر ہے ہرگز نہیں! 


ٹھیک اسی طرح ایک مومن بیمار کے لیے بھی نماز قرب خداوندی کا سامان بن کر سکون و عافیت اور راحت کا ذریعہ ہوتی ہے. 

اسے زبردستی کی پابندی قرار دینا مناسب نہیں!یہی وجہ ہے کہ شریعت یہ کہتی ہے کہ *"مومن مرد ہوش مند"* پر کسی صورت نماز معاف نہیں!الا یہ کہ وہ بے ہوش ہو!چناچہ یہ یاد رہے کہ *بے ہوش بیمار و ہوش مند بیمار* دونوں کا حکم الگ الگ ہے. 


لہذا آپ کے والد صاحب کا بعد آپریشن ایک دن جو بے ہوشی میں گزرا،اگر چھ نمازوں کا وقت اس درمیان گزر گیا تو اس دن کی یہ چھ نمازیں معاف ہیں یعنی اسکی قضا نہیں ہے.اسکے بعد جتنے دنوں انہوں نے ہوش میں گزارا،ان دنوں کی نمازیں قضا کرنا ہونگی.


نیز یہ واضح رہے کہ اوپر بیان کردہ تفصیل و تمثیل کے مطابق نماز بیماری کی حالت میں انکے لیے بھی اور دیگر بیمار مؤمنين کے لیے بھی سکون و راحت فراہم کرنے اور ریلیکس {Relax} کرنے والی ہی عبادت ہے.العیاذ باللہ کویی بیجا پابندی یا جبر نہیں!

اپنے کزن کو سمجھانے کے لیے ایک بار پھر اسے اچھی طرح سے اوپر بیان کردہ تمثیل کی روشنی میں سمجھ لیں! 


اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ بیماری کی حالت میں بھی طہارت و تیمم اور ہوش و شعور کے ساتھ بسہولت کبھی کھڑے،تو کبھی بیٹھے،تو کبھی چت لیٹے تو کبھی پہلو پر ہوکر،الغرض بندے کو جیسی سہولت ہو یہ عبادت اسی طرح ادا کی جاتی اور کی جانی ہے.شریعت میں اسکی پوری تفصیلات موجود ہیں.اور یہ یونہی عنداللہ قابل قبول ہیں.

اس کے متعلق "جیسے تیسے رہو کھڑے ہوجاو ....لگ جاؤ" یہ سب کہنا مناسب نہیں!


امید کہ آپ ان تفصیلات کی روشنی میں اپنے سوال کا جواب پاگئی ہونگی. 

دعاؤں میں یاد رکھیں! 


آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا 

12/12/2022 

💌muftitmufti@gmail.com 

📞+918789554895 

🥏+919122381549

تبصرے