قرآن و حدیث میں تضاد بیانی یا کم فہمی؟ مفتی توقیر بدر القاسمی الازہری

 

قرآن کو مانیں یا حدیث کو؟



السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
مفتی صاحب میں ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ ہوں.سوشل میڈیا پر میرے بعض کولیگ ایتھیسٹ(ملحد) ہیں.
عجیب بات ہے انکے نام مسلمانوں والے ہی ہیں؛مگر وہ کہتے ہیں ہم کسی مذہب و دین کو فالو نہیں کرتے، ہم لادین و ناستک ہیں.انکا کہنا ہے کہ ہاں ہم سبھی دین کا خالص عقل و منطق {Pure Reason & Logic} کی روشنی میں مطالعہ و تجزیہ کرتے ہیں.آج کا یہی بہتر طریقہ ہے.

ایسے موقع سے ہم جب انہیں اسلام کی طرف بلاتے ہیں تو وہ بحث کرنے لگتے ہیں.ایک مرتبہ باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے.
دیکھو! حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ آدمی کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا ہے اور قرآن یہ کہتا ہے کہ خدا نے اسی صورت والے انسان یعنی بنی اسرائیل کے لوگوں کی صورتوں کو مسخ کرکے سوور و بندر بنادیا.

اس کا مطلب یہی ہوا نا انکی نسل در نسل اسی بد صورتی کے ساتھ جیتے ہویے یا تو اس حدیث کو جھٹلارہی ہے.یا پھر اللہ اپنی صورت کو ہی مسخ کر رہا ہے!
(نعوذ باللہ!)
آخر بتاؤ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟یہ تو سراسر ان میں ایک قسم کا {contradiction} تضاد ہے.
اس سوال کے بعد وہ اگلا سوال قائم کرتے ہیں کہ
اب بتاؤ! کیسے قرآن و نبی کو عقل و منطق کی رو سے کوئی ویلڈ {Valid} مان سکتا ہے اور اس پر مکمل یقین و ایمان لا سکتا ہے؟
مفتی صاحب میرا تو قرآن و حدیث پر مکمل ایمان ہے.البتہ اس کی باتوں نے مجھے بھی عجیب کنفیوژن میں ڈال دیا ہے.

از راہ کرم آپ ہمیں بتائیں کہ آخر اس کی کیا حقیقت {Reality} ہے؟جسے ہم سمجھ سکیں اور انہیں سمجھاپائیں!

ہمارے ایک سینیر شعیب بھائی سے آپ کا نمبر ملا. انہوں نے ہی آپ سے رابطہ کرنے کہا ہے.امید کہ آپ ہمارے واسطے ضرور وقت نکالیں گے.
جزاکم اللہ خیرا

آپ کا بھائی جمشید نور بھوپال
_____________________
وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کے کولیگ نے کم از کم قرآن و حدیث کو پڑھا اور اسے اس حد تک تسلیم کیا، کہ قرآن ہے.حدیث ہے، اور ان میں یہ یہ باتیں ہیں.اسی کے ساتھ ساتھ یہ اچھی بات ہے کہ وہ عقل و منطق کی روشنی میں سبھی کچھ کو دیکھتے ہیں. قرآن کریم خود اپنے قاری کو بار بار عقل کو کام میں لانے کی تاکید کرتا ہے. 
ظاہر ہے وہ اگر انہیں تسلیم ہی نہیں کرتے، تو آپ سے بحث کے دوران وہ انہیں کیوں پیش کرتے؟اور عقل کو کیوں معیار بناتے! 

 اب یہ اور بات ہے کہ انکو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے.
چناچہ آپ نے اپنے کولیگ کے حوالے سے جن واقعات کو پیش کیا ہے.ان سے کہیں کہ پہلے اس میں دو باتوں کو درست {correct} کرلیں!

پہلی بات تو یہ کہ احادیث نبویہ میں عام "آدمی" نہیں؛بلکہ فقط "آدم علیہ السلام"کی بات آیی ہے.

وہاں عام انسان اور آدمی کی بات کہی ہی نہیں گئی ہے.جس کی بنیاد پر اعتراض کیا جارہا ہے.ہاں البتہ آدم علیہ السلام کے واسطے سے انکی اولاد کی صورت پر یہ بات آسکتی ہے تو اس حوالے سے یہ ذہن نشیں رہے کہ اس حدیث کا دو ٹوک واضح اور متفقہ مطلب وہ ہی ہےنہیں، جو آپ کے کولیگ نے سمجھ رکھا ہے،کہ خدا نے اپنی صورت کے مطابق اپنے جیسا بنایا.اسکی تفصیل آگے آرہی ہے.

دوسری بات یہ کہ قرآن کریم کے مطابق پوری بنی اسرائیل قوم کو نہیں،بلکہ ان میں بعض شری قسم کے لوگوں کو وہ بھی عبرت کی خاطر فقط تین دنوں کے لیے اس اذیت ناک سزا سے گزارا گیا.چناچہ تین دنوں بعد انہیں تبھی نیست و نابود کردیا گیا.انکی کوئی نسل اس وقت موجود تھی نہ آج موجود ہے.لہذا اس حوالے سے نسل در نسل اور بد صورتی کی باتیں بھی بے بنیاد {Basless} ہیں.

ان باتوں کی تفصیل یہ ہے کہ:
احادیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی جہاں تفصیلات بتایی گئی ہیں،وہاں بیان کردہ ان الفاظ "خلَق اللهُ آدَمَ على صورتِه وطولُه سِتُّونَ ذراعًا فلمّا خلَقه قال: اذهَبْ فسلِّمْ على أولئك النَّفرِ ـ وهم مِن الملائكةِ جلوسٌ ـ فاستمِعْ ما يُحَيُّونَك فإنَّها تحيَّتُك وتحيَّةُ ذُرِّيَّتِك قال: فذهَب فقال: السَّلامُ عليكم فزادوه: ورحمةُ اللهِ قال: فكلُّ مَن يدخُلُ الجنَّةَ على صورةِ آدَمَ طولُه سِتُّونَ ذراعًا فلَمْ يزَلِ الخَلْقُ ينقُصُ حتّى الآنَ"{صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٦١٦٢}کے ساتھ پوری باتیں بیان ہویی ہیں.

آپ کسی عربی داں سے معلوم کرلیں کہ آخر" خلق اللہ آدم علی صورتہ" کا دو ٹوک واضح مطلب کیا ہوسکتا ہے؟
وہ یہی کہیں گے اس میں لفظ 'صورت' کے ساتھ 'ہ' لگا ہوا ہے.اسے 'ضمیر' {Pronoun} کہا جاتا ہے.اس ضمیر کا مرجع {Antecedent} یہاں لفظ 'اللہ و آدم 'دو دو دکھائی دے رہے ہیں.

اسکے پیش نظر اس میں دو باتیں ہوسکتی ہیں یا تو اس ضمیر {Pronoun} کا مرجع {Antecedent} لفظ آدم ہے.مطلب آدم علیہ السلام کو رب العالمین نے انکی اپنی خاص {Special} صورت و قامت کے ساتھ پیدا کیا. جمہور محدثین {Majority of Scholars}اسی توجیہ {Application} کو بہتر قرار دیتے ہیں.کیونکہ یہی عربی اصول و قواعد کا تقاضا ہے اور آگے اس میں "طولہ ستون ذراعا"کی وضاحت اسی کی تایید کرتی ہے.

اس خاص {Special} صورت و قامت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ابتدائی تخلیق کے وقت ہی مکمل ساٹھ گز کے تھے یعنی عام انسانوں کی طرح نہیں،کہ پہلے اسکی ولادت ہو، پھر بچپنا ہو، پھر لڑکپن ہو پھر جوانی ہو وغیرہ وغیرہ!

ظاہر ہے جب یہ توجیہ {Application} ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے فقط آدم (علیہ السلام) کو _نہ کہ سبھی آدمی کو_ آدم (علیہ السلام) کی ہی اپنی متعینہ مخصوص صورت _نہ کہ اللہ نے اپنی صورت _ کے مطابق پیدا کیا. تو پھر آپ کے کولیگ کی بات اپنے آپ اس بحث سے خارج ہوجاتی ہے.

ہاں اس بیان کردہ توجیہ کے برعکس بعض دیگر ماہرین و محدثین نے یہ بھی کہا کہ اس 'ہ'ضمیر کا مرجع لفظ 'اللہ' بھی ہو سکتا ہے.پھر اسکے بعد وہ بتاتے ہیں کہ ایسی صورت میں اس کے دو الگ الگ مفہوم سمجھ میں آتے ہیں.

اول:'صورت' سے مراد 'صفات' ہے کہ اللہ رب العزت نے ان کو اپنی والی صفات یعنی دیکھنے سننے اور جاننے وغیرہ والی صفات و احساسات سے متصف کرکے پیدا کیا؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صورت و شکل تو دور،انکا کہیں سے کہیں تک کوئی مثل بھی نہیں. سورہ شوریٰ کی یہ آیت آپ دیکھ لیں "لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ"( آیت ١١)

دوم:حضرت آدم علیہ السلام کو عزت بخشنے اور رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں میں انہیں ممتاز و عظیم قرار دینے کے واسطے بیان کا ایسا انداز اپنایا گیا،یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ساری دنیا اللہ رب العزت کی ہے، مگر پھر بھی اسی دنیا میں مسجد کو عزت و احترام اور اعزاز بخشنے کی خاطر اسے "بیت اللہ" (اللہ کا گھر) کہا جاتا ہے.
عام بھاشا میں اسے آپ "Man of the match" کی اصطلاح سے سمجھ سکتے ہیں،کہ میچ پوری ٹیم کھیلتی ہے، مگر کسی ایک کھلاڑی کو اچھا پرفارم کرنے کی بنیاد پر اسے اعزاز بخشنے اور نمایاں بتانے کی خاطر پورے کھیل کو اسی سے موسوم کردیا جاتا ہے.

بہر حال ظاہر ہے اس بیان کردہ توجیہ {Application} کے مطابق بھی آپ کے کولیگ کی بات خارج ہوجاتی ہے.
اور اعتراض کی کوئی بنیاد {Base} نہیں بچتی ہے.

اسکے بعد جہاں تک قرآن مقدس میں بنی اسرائیل کے بعض شر پسندوں اور خدائی احکام کو چیلنج کرنے والے افراد کی صورتوں کےمسخ کی بات آتی ہے.تو اس سلسلے میں بھی ایک بڑے مفسر حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے افراد نے اپنے خواہشات کے پیچھے چل کر جس طرح من مانی کی تھی اسکے پیش نظر انکی صورتوں کو نہیں بلکہ انکے دل و دماغ کو سوور و بندر کے دل و دماغ جیسا بنادیا گیا تھا.دیکھیے {تفسیر قرطبی در ضمن تفسیر سورہ بقرہ:آیت :٦٥}

ظاہر ہے قرآنی الفاظ میں اسکی بھی نہ صرف پوری گنجائش موجود ہے،بلکہ عقل و منطق کو یہ توجیہ بھی اپیل کرتی ہے دیکھیے {سورہ بقرہ آیت نمبر ٦٥}نیز {سورہ انعام آیت نمبر ١٦٥}

اس کے علاوہ بلاشبہ انکے برعکس دیگر جمہور مفسرین نے انکی صورتوں کو ہی مسخ کیے جانے کی بات کہی ہے.

تاہم دونوں فریقین متفقہ طور سے بیک زبان حدیث کی روشنی میں یہ مانتے ہیں کہ انہیں تین دنوں بعد نیست و نابود کردیا گیا.ان میں سے کہ کوئی فرد بچا نہ اسکی کوئی نسل چلی! نعوذ باللہ منہ!

چناچہ اس حوالے سے آپ صحیح مسلم میں بروایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ "ذُكر عند النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ القردةَ والخنازيرَ فقال:إنَّ اللهَ لم يجعلْ للمسخِ نسلًا ولا عقِبًا،وقد كانتِ القِردةُ والخنازيرُ قبلَ ذلك" أخرجه مسلم (2663) آپ دیکھ سکتے ہیں.اس میں سوال کرنے پر آقا صلی اللہ علیہ نے صاف صاف بتادیا کہ نہ وہ لوگ باقی رہے نہ انکی کوئی نسل!

آج جو بھی بندر و سوور جانور دکھائی دیتے ہیں.یہ سب ان سے پہلے سے چلے آرہے ہیں.ان کا بنی اسرائیل کے ان بعض تباہ شدہ و فنا شدہ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں!

ان ساری تفصیلات کے بعد راقم کا مشورہ ہے کہ ایک عام سی بات بھی آپ کے کولیگ سامنے ضرور رہنی چاہیے.

وہ یہ کہ آج ایک دنیوی حکمران اور بلڈرز اربوں کھربوں کا پروجیکٹ مکمل کرتا ہے اور پھر کسی وجہ سے اسے ملیا میٹ کرنا پڑے،تو وہ بے دریغ اسے منہدم کرکے ملیا میٹ کردیتا ہے.اور دوسرا کھڑا کرلیتا ہے تب تو کوئی اعتراض نہیں کرتا،اسے اپنی ملکیت میں اپنا آپشن و چوائس کہکر سب خاموش رہ جاتے ہیں،مگر جب معاملہ خالق کاینات اور رب العالمین کا سامنے آتا ہے جو "فعال لما یرید" ہے. جو "احکم الحاکمین" ہے.تو اس پر اعتراض بڑی تیزی سے جڑ دیا جاتا ہے.
حالانکہ وہ اپنے مخلوق کے ساتھ اپنی حکمت کے مطابق جو کرنا چاہے،بلاشبہ اسے کرنے کا پورا پورا اختیار ہے.یہی قادر مطلق، مختار کل اور "فعال لما یرید" کا تقاضا ہے.
لہذا اس فلسفہ کے مطابق رب قدیر کے کسی فعل و امر پر اعتراض کرنا یہ کسی بھی صورت درست نہیں!

امید کہ یہ توجیہات و تفصیلات آپ کے کام آییں گی.اور آپ کے کنفیوژن دور کرنے میں معاون ہونگی.

اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں! جزاکم اللہ خیرا!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا.
٢٤/٠٩/٠٢٢
muftitmufti@gmail.com
+919122381549
+918789554895

تبصرے