اللہ رب العزت بددعا کیوں کرے گا؟ مفتی توقیر بدر القاسمی الازہری

اللہ بددعا کیوں کرے ؟



السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ! 

مفتی صاحب میں ایک جناب کا یہ اسکرین شاٹ بھیج رہا ہوں.آپ اس کی وضاحت فرما دیں میں اس کی متن بھی لکھ کر بھیج رہا ہوں. 


"میں ملحد نہیں ہوں، مگر میرا ایک سوال ہے کوئی رہنمائی کرے،

اللہ چونکہ کن فیکون کا مالک ہے، پھر وہ ابولہب کو بد دعا کیوں دیتا ہے،سورہ لہب میں، کہ اپ کے بازو ٹوٹ جائیں، اپ ہلاک ہوجائیں،۔۔

بدعا دینا تو کمزور شخص کا کام ہے، جو اپنے سے طاقتور دشمن سے مقابلہ نا کرسکتا ہو تو وہ اس کو بدعا دیتا ہے بے بس ہوکر، 

اور اللہ کی اس بدعا سے اسی وقت ابو لہب مرا بھی نہیں اور نہ اس کے دونوں بازو ٹوٹ گئے تھے؟؟"

امید کہ آپ توجہ دیں گے. آپ کی تفصیلی جواب کا منتظر 

آپ کا دینی بھائی ایم ایچ صدیقی پاک.... ان

___________________

وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ! 

دیکھیے سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ابو لہب کو احکم الحاکمین و رب العالمین کی طرف سے دھمکی بھری سزا کی خبر دی گئی ہے.جو اپنے وقت پر پوری ہوکر رہی، کوئی اسے ٹال نہ سکا.اس میں کوئی بددعا یا عاجزی والی بات نہیں ہے،کہ ایسے سوالات قائم کیے جائیں! 


آپ اگر اس کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو پہلی بات یہ بتادوں کہ اس میں بیک وقت تین خامیاں {Errors} در آیی ہیں.


ان خامیوں کی بنیاد پر یہ اشکالات پیدا ہوئے ہیں،بلکہ اصولی طور پر خود یہ اپنے آپ میں  قابل رد{ Self Rejected} باتیں بن رہی ہیں. 

اب دیکھ لیجیے نا اعتراض کرنے والے کی بات میں ایک طرف اللہ رب العزت کو 'کن فیکون' کا عظیم و برتر مالک بھی مانا گیا،دوسری طرف انکو 'بددعا دینے والا' ایک 'بے بس و عاجز' بھی،گویا خود مختار حاکم و آقا اور لا چار غلام و محکوم دونوں ایک ہی ذات !یہ تضاد {Paradox} نہیں تو کیا ہے؟ 

 چناچہ اس وجہ سے اپنے آپ میں یہ باتیں سراسر متضاد و متناقض {Paradox} ہورہی ہیں.

عقلا و حکما {Geniuses} ایسی باتوں کو قابل توجہ نہیں گردانتے !وہ انہیں رد کردیتے ہیں! 


خیر پہلے وہ تین خامیاں {Errors} کیا کیا ہیں،آییے ہم انہیں دیکھ لیتے ہیں! 


اول:اللہ جل جلالہ کا مقابل و روبرو مخاطب ایک عام انسان یعنی ابولہب کو ماننا اور پھر آمنے سامنے بددعا اور کن فیکون کے مالک ہونے کی وجہ سے اس پر بے بسی کا اشکال. 


دوم:قرآن مقدس کو فقط اسی مذکور انسان کے وقت تک کے لیے محدود جاننا اور پھر اسی وقت اسکے دونوں ہاتھ نہ ٹوٹنے کو لیکر اعتراض! 


سوم:عربی زبان و عرب تاریخ سے ناواقفیت کی بنا پر "تبت یدا ابی لھب" کی اپنی سی ترجمانی اور ابولہب کے انجام سے ناواقف رہنا اور ابولہب کو اس مذکور دھمکی بھری پیش گوئی سے آزاد جانکر اس بابت ابہام! 


یہاں اگر ان تینوں خامیوں کی اصلاح {Correction} کرلی جایے تو کوئی اشکال و اعتراض اور ابہام {Objection &Haze }

 نہیں رہے گا. ان شاء اللہ 


آپ ان جناب سے کہیں!

میرے بھائی یہ یاد رکھیں قرآن کریم وہ کتاب الٰہی ہے،جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اور انکے توسط سے ہم عاجز بندوں تک پہونچی ہے اور آئندہ قیامت تک رہنے والی انسانیت کی بھی راہنما و گائیڈ بک ہے.

"تبت یدا ابی لھب" میں نہ تو براہ راست اللہ جل جلالہ و عم نوالہ ابو لہب کو سامنے مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں اور نہ یہ ممکن تھا، جس کی بنیاد پر آپ نے مقابلہ، فوری اثر کا نہ ہونا اور عاجزی والی بات فرض کرلی! 

یہ جبریل علیہ السلام کے واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہمیں بتلایی گئی ہے. 

کیونکہ بالفرض اگر ایسا ہوتا تو پھر رب کریم کے سامنے اس ابولہب کا مجال انکار و جرات گستاخی اور اسکے بعد اس کی ایسی درگت اور ان باتوں کی نوبت ہی کیوں آتی؟


یہ تو اصلا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کے حوالے سے ان جیسوں کے حق میں رہتی دنیا تک دی جانے والی دھمکی آمیز خبر و پیش گوئی ہے.اور بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بادشاہ و حکمراں مجرم کے نام آرڈر جاری کرکے اسے خبردار کرتا ہے، جسے بادشاہ کی بددعا کہنا سراسر نادانی ہوگی.


چناچہ یہ شاہی فرمان کی طرح ایک الوہی یک پیش گوئی تھی اس کا اپنا ایک وقت رب قدیر کے علم میں طے تھا،یہ وقت کا طے ہونا اور فوراً سزایاب نہ کرنا بھی ایک حکمت بھرا امر ٹھہرا.

 اسے مہلت دینا اور پھر اسے اسکی کرتوت کے مطابق طے شدہ وقت پر سزا سے دوچار کرکے تباہ کرنا،ان میں جس قدر وسیع عبرت و موعظت کا سامان ہوا ہے،وہ فوری پکڑ میں کہاں ہوتا؟ فوری پکڑ پر ممکن ہے پھر یہی معترضین یہ بھی کہتے کہ اسے سدھرنے کا چانس نہیں دیا گیا.


سوبالآخر وہ پیش گوئی سچ ہویی.اس پیش گوئی کے مطابق کل وہ ابولہب اپنے انجام کو پہونچا، جس کا نام لیا گیا، اور آئندہ کل اس انجام سے وہ سبھی دوچار ہوتے رہیں گے جو اس ابولہب کی تقلید کریں گے!


سو جیسا عرض کیا گیا کہ قرآن کریم فقط اسی زمانے تک لیے تو محدود نہیں تھا،کہ بس اس وقت کے لوگوں پر اسے اپلایی کرتے جائیں اور نفیا و اثباتا اس پر فیصلہ صادر کرتے پھریں؛بلکہ یہ تو قیامت تک آنے والے ظالم و سرکش کے لیے ایک طرف جہاں انکی اوقات بتانے والی ایک واضح دستور ہے،وہیں عاجز بندوں کے لیے صراط مستقیم فراہم کرنے والی کتاب مبین بھی ہے.


بلاشبہ بددعا ایک عاجز و بے بس ہی کرسکتا ہے، چناچہ ان عاجز بندوں کے لیے بقول آپ کے بشکل 'بددعا' یہ بھی ایک سہارا ہے.جس کی راہنمائی قرآن نے کی ہے. اور جب ایسا ہے تو پھر عاجزوں کے حق میں آخر یہاں محال والی بات کیا ہوسکتی ہے؟بددعا کے وقت اس عاجزی و بے بسی کا قائل تو معترض بھی ہے. 


لہذا کہاں عاجز بندہ اور اسکے اپنے نمٹنے کا طریقہ کار اور کہاں رب کائنات اور انکی قدرت وطاقت اور وقت مقررہ پر پیش آنے والی پیشن گویی!! دونوں کو ایک کرنا اور پھر من مانا نتیجہ نکالنا یہ تو سراسر عقل و دانش کے خلاف ہے. 


جہاں تک "تبت یدا ابی لھب" کے ترجمے و مفہوم کی بات ہے تو میرا مشورہ یہی ہے کہ پہلے اس تعبیر کو کسی عربی داں سے سمجھ لیں!اسکے بعد ابو لہب کی زندگی اس آیت کے نزول کے بعد کیسی رہی،اسے کسی واقف کار سے جان لیں سارا ابہام و اشکال دور ہوجایے گا.ان شاء اللہ!


سردست اتنا جان لیں  ہاتھ ٹوٹنا عربوں کے مطابق تباہ و برباد ہونا ہوتا ہے.

سو ابو لہب کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے شفیق داعی کی مشفقانہ دعوت پر گستاخی کی جانے پر اسکی تباہی و بربادی کی پیش گوئی کی گئی اور اسے ماضی کے صیغے سے بتاکر اس پر قطعیت کی مہر لگائی گئی.


 چناچہ وہ اس پیش گوئی کے مطابق وقت مقررہ پر مکمل طور سے تباہ و برباد ہوا.


عجیب بدبو پھیلانے والی بیماری میں مبتلا ہوکر مرا اسکی لاش تک سڑتی رہی جسے گھسیٹ کر پھینکا گیا.اور یوں مالک کن فیکون کا آرڈر اپلایی ہوا.ظاہر ہے اس میں نہ کہیں بددعا کی بات نظر آتی ہے،نہ کہیں کسی قسم کی عاجزی و بے بسی جھلکتی ہے. 


امید کہ یہ تفصیلات آپ کے لیے کافی ہونگی!


دعاؤں میں یاد رکھیں! 

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری

ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا 

٢١/٠٩/٢٠٢٢

muftitmufti@gmail.com 

+918789554895 

+919122381549

تبصرے