مفتی صاحب کیا اسلام دین میں تنگی ہے؟ مفتی توقیر بدر القاسمی الازہری

!اسلام ایک تنگ نظر دین ہے:ایک طالبہ کا بیان



اس سوال جواب کو دھیان سے پڑھیں اور سوچیں کس کس طرح سے ذہنوں کو الجھایا جارہا ہے یا پھر باطل اپنے حق میں پڑھی لکھی بچیوں کو اپنی طرف کررہا ہے


السلام علیکم! 

مفتی صاحب میری ایک سہیلی ہے،وہ مجھ سے کافی کلوز ہے اور فرینک بھی،اس کا سیاسیات و سماجیات پر کافی مطالعہ ہے.اس کا ماننا ہے کہ اسلام میں کہیں کہیں تنگ نظری بہت ہے.بطور خاص اس میں عورت کے حقوق کو لیکر مساوات،رواداری و سماجی برداشت {Social Tolerance} نہیں ہے.

چناچہ اس کا کہنا ہے کہ تم دیکھو شادی میں قبولیت کے وقت اسلام میں مرد و عورت دونوں کی رضا مندی پوچھی جاتی ہے،مگر طلاق کے پروسس کو یک طرفہ طور پر فقط مرد کے ہاتھوں میں رکھ دیا گیا ہے.جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ طلاق کے وقت ایک تو اس عورت کی رضا بھی پوچھی جاتی اور طلاق کی ضرورت محسوس ہو تو بیوی بھی اسے ایکزیکیوٹ {Execute} کر سکتی!


اسکے علاوہ ایک دن وہ کہہ رہی تھی کہ جب ہم نن مسلم ڈاکٹر سے علاج کرواسکتے ہیں،انکی دوکان سے سودا لے سکتے ہیں،انکے یہاں پڑھائی کرسکتے ہیں،انکی ایڈمنسٹریشن کو تسلیم کرسکتے ہیں.وہ بھی مسلمان کی طرح اپنی بیوی کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں،انکے یہاں بھی بچے ہوتے ہیں انکی تعلیم و تربیت سبھی کچھ ایک مسلمان کی طرح! 

الغرض انہیں اچھا انسان جانکر سبھی سماجی و معاشرتی کام ان سے مل جل کر سبھی جگہ مسلمان انجام دے سکتے ہیں،انہیں بھی سبھی مسلمان اپنی طرح ایک انسان سمجھتے ہیں،تو پھر ان نن مسلم سے ایک لڑکا یا لڑکی مسلمان رہتے ہوئے شادی کیوں نہیں کرسکتے؟

--------

آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس سلسلے میں ہماری معقول و مدلل طریقے سے راہ نمائی کیجیے!جزاکم اللہ خیرا 


دراصل یہ میں نے اپنے امام صاحب سے پوچھا تھا.تو انہوں نے علی گڑھ کے اپنے ایک دوست کے توسط سے کسی گروپ سے لیکر آپ کا نمبر دیا ہے.اس لیے آپ کو لکھ کر مسیج کر رہی ہوں.امید کہ آپ وقت نکال کر توجہ دیں گے! 

آپ کی ایک دینی بہن...... 

نوٹ:جواب میں آپ سے نام کو پوشیدہ رکھنے کی گزارش کی جاتی ہے.اور آپ کا اس پر کوئی ویڈیو ہو تو اسے بھی شئیر کرنے کی درخواست کی جاتی ہے. 

==========

وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ! 

سب سے پہلے تو یہ واضح کردوں آپ کی باتوں سے راقم یہ نہیں جان سکا کہ آپ کی سہیلی کلمہ گو مسلم ہے یا نن مسلم؟تاہم یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کی سہیلی پڑھی لکھی ہیں اور سماجیات و سیاسیات پر ان کا اچھا مطالعہ ہے.میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ انہیں 'اسلامی لٹریچر' بھی فراہم کریں!ان شاء اللہ ان کی یہ ساری الجھنیں دور ہوجائیں گی! 


جہاں تک راقم کی طرف سے معقول و مدلل جواب کی بات ہے،تو اصولی طور پر ظاہر ہے کہ اسلام کی بات اسلام کی حقیقت اور اس کے بنیادی ماخذ سے ہی ہم آپ سمجھ سکتے ہیں.


آپ جانتی ہیں کہ علمی و اکیڈمی دستور بھی یہی ہے؛کہ جن چیزوں کے متعلق گفتگو ہوتی ہے،پہلے پہل ان چیزوں کی تسلیم شدہ حقیقت و ماہیت کا اقرار کرنا ناگزیر ہوتا ہے.

چناچہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم آپ 'پانی' کی بات کریں اور اسکی بنیاد و حقیقت 'آکسیجن و ہائیڈروجن' کو اور سائنسی تجربہ سے ثابت شدہ کلیہ {H2O} کو نظر انداز کردیں! 


سو اس بحث و تحقیق میں بھی اصولی طور پر جب بات "دین اسلام" کی ہورہی ہے، تو اسکی حقیقت بھی ہمیں لازماً سامنے رکھنا ہوگی! 


"دین اسلام" سے مراد اللہ تعالیٰ جو خالق کاینات ہیں، جو ہر قسم کی تجسیم و تشبیہ سے بالاتر اور ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک صاف ہیں اور تمام تر قدرت و آگہی کے مالک ہیں،ان پر،تمام انبیاء سمیت آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور انکے اوپر نازل شدہ کتاب الہی قرآن پاک اور اس قرآن پاک میں بیان کردہ جنت و جہنم، حشر و نشر ملائکہ و رسل پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا اور ان سب کو جسم و جان سے تسلیم کرنا ہے.اگر کوئی اس پر کھرا اترتا ہے،تو وہ مسلمان ہے اور ایسا نہیں تو پھر وہ مسلمان نہیں!


ظاہر ہے جب ایک مسلمان سے گفتگو کریں گے تو اسکو پہلے قرآن و سنت کا قائل و پابند مانیں گے،اور لازما اس سے اسی کے مطابق بات کریں گے نیز اسے ان کے قائل و پابند رہنے کو ہی مناسب سمجھیں گے!ورنہ بصورت دیگر وہ مسلمان نہیں اور جب مسلمان نہیں،تو پھر بحث کس سے اور کس بات کی؟ 


آپ جب اپنی سہیلی کو بیان کردہ اصول و حقیقت پر قائل کرلیں!تو ان سے کہیں اسی قرآن نے عورت کی حفاظت و آرام کی خاطر الگ الگ مرحلے میں اسکے قریبی مرد کو اس کا نگراں و محافظ بنایا ہے.

چناچہ اسی نگرانی و حفاظت کے پیش نظر قانونی طور پر بعد شادی نگراں مرد کو ناگزیر صورت میں نظام زندگی کو جاری و ساری رکھنے کے واسطے جہاں ایک طرف بحیثیت شوہر اسے خوب سوچ سمجھ کر اپنے طور سے 'طلاق' کا اختیار دیا ہے،وہیں دوسری طرف خواتین کو بھی سربراہان خاندان یا اسلامی جج کی ثالثی سے 'خلع' کا مجاز بنایا ہے. یہ اسلامی قوانین کی بے مثال مساوات ہے. 


یہاں اچھی طرح سے یہ سمجھا دیجیے کہ اسلام میں یہ معاملہ انتہائی حساس مانا جاتا ہے،اسکی نگاہ میں نہ تو یہ کوئی کھیل تماشہ ہے،کہ جب من میں آیا طلاق دے دیا،نہ یک طرفہ کوئی مردانہ و متعصبانہ عمل؛ کہ عورت چاہ کر بھی مرد سے چھٹکارہ نہیں پاسکتی!جہاں تک بات طلاق کے وقت عورت کی رضا کی ہے،تو سوچ وچار کے بعد نارمل حالت میں اسکی پوری پوری گنجائش رکھی گئی ہے،اور ہنگامی حالت میں دوران عدت رجعت کی گنجائش اسی کی طرف دار ہے. 


آپ انہیں ان سبھی امور کی تفصیلات سے آگہی کے واسطے فرمان الہی سے لبریز ان امور پر روشنی ڈالنے والی آیات "الرجال قوامون علی النساء"(سورہ نساء: ٣٤)اسی طرح "الذی بیدہ عقدۃ النکاح"(سورہ بقرہ :٢٣٧)اور "فابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا...الخ"(سورہ نساء:٣٥) سے روشناس کراسکتی ہیں.


انہیں بتائیں کہ اسلام کا یہ نظام عین انسانی مزاج و معاشرے کے بالکل موافق ہے.ہم آپ آئے دن یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ایک باپ اپنے بیٹا کو پالتا پوستا ہے.

اپنے مرنے کے بعد اسے اپنی جائیداد و پراپرٹی کا وارث بنا جاتا ہے،مگر وہی باپ جب اسی پالا پوسا بیٹے سے ہر ممکن اصلاح کے بعد تنگ آجاتا ہے،تو پھر اسے اپنی زندگی و جائداد سے 'عاق و محروم ' بھی کردیتا ہے.اخبارات میں اسکے اشتہارات تک آجاتے ہیں.

تو کیا یہاں ہم یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ اب تک تو دونوں مل جل کر رہ رہے تھے اور جب محروم کرنا ہوا تو بس ایک لفظ 'عاق' سے اور اشتہار سے یکطرفہ طور پر اسے محروم کردیا؟


یہی نہیں ہم آپ اگر کسی کمپنی میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں،تو مل بیٹھ کر انٹرویو لیتے دیتے ہیں،سیلری پیکج پر آپس میں ڈسکشن کرتے ہیں، مگر جب وہی کمپنی ہماری کارکردگی سے مطمئن نہ ہو،تو وہ ہمیں یک طرفہ طور پر برطرف کردیتی ہے.اور جب ہم اس کمپنی سے مطمین نہیں ہوتے، تو ہم اسے استعفیٰ بھیج دیتے ہیں.یہی صورت حال اسکول کالج میں داخلہ {Admission} لیتے وقت اور وہاں سے اخراج {Expel} کیے جاتے وقت یا چھوڑتے { Leave} وقت سامنے آتی ہے.اور یہاں کبھی کوئی اعتراض نہیں کرتا،کیوں کہ یہ انسانی مزاج اور معاشرتی فطرت کے مطابق ہوتا ہے.


امید ہے کہ آپ کی سہیلی تفصیل سے بیان کردہ ان امور سے اتفاق کریں گی اور اگر انہیں ان بیان کردہ تفصیلات سے اتفاق نہیں،تو پھر ان سے پوچھیے کہ آخر ناگزیر صورت میں چھٹکارے کے لیے تمہارے دماغ میں اور کیا آئیڈیاز ہیں؟ 


جہاں تک سماج میں مسلم نن مسلم کے مل جل کر رہنے اور سبھی سماجی امور مشترکہ طور پر انجام پانے پر شادی کو بھی قیاس کرنے کا ہے، تو اس بابت راقم پہلے یہ عرض کرنا چاہے گا کہ دین اسلام اور فرمان الہی یعنی مقدس قرآن میں اسکی اجازت نہیں دی گئی ہے.آپ ان کو "لا تنکحوا المشرکات حتیٰ یومن الخ" (سورہ بقرہ:٢٢١)سے واقف کراسکتی ہیں.


ایسا اس لیے کیونکہ شادی فقط دور دور سے ہائے ہیلو یا پیسے دیا سامان لیا جیسے کسی سودے بازی کا نام نہیں،بلکہ میاں بیوی کے ایک دوسرے میں جسم سے لیکر روح تک میں اللہ کا نام لیکر اترنے اور سماجانے کا نام ہے.ایک دوسرے میں ظاہر و باطن ہر اعتبار سے گھل کر ضم ہوجانے کا نام ہے. 


ظاہر ہے یہ الگ الگ متضاد سوچ و عقیدہ {Thaughts & Beliefs} رکھنے والے کے درمیان ممکن نہیں!

یہ تبھی ممکن ہے جب میاں بیوی دونوں ایک دین ایک پروردگار اور انکے بتایے گیے قوانین کے پیروکار ہوں! 


وہ بھی جانتی ہونگی کہ دو الگ الگ ملک والے بھلے ایک دھرتی پر رہتے ہیں،مگر پھر بھی ایک ملک والے کو دوسرے میں ملک گھر مکان بناکر بسنے کے لیے پاسپورٹ و ویزا لیکر وہاں جانے اور شہریت حاصل کرنے کی جو شرط ہے،اسے پورا کرنا پڑتی ہے. 

سمجھ لیجیے کہ اسلام نے بھی ایک مسلم سے شادی بیاہ کے واسطے نن مسلم کے لیے اسی طرح ایمان کی شرط رکھی ہے.


اب اگر انہیں ان سب سے پرے فقط مکانی یکجائی و ظاہری مماثلت کی بنیاد پر اصرار و اعتراض ہے،تو ایسی صورت میں پھر آپ کو بھی ان سے کچھ پوچھنے کا پورا پورا حق ہے. 


چناچہ آپ پوچھیں کہ انسانی عقل و قیاس کی گنجائش کس حد تک ہے؟آخر کیا پیمانہ ہے کہ اسے فلاں فلاں جگہ تو درست {valid} اور فلاں فلاں جگہ نادرست { Nonvalid} قرار دیا جایے؟ آیا یہ عام و مطلق ہے یا پھر کسی کا پابند؟ 


اگر انہیں بیان کردہ اصول کے مطابق قرآن و اسلامی قوانین سے کوئی مطلب نہیں،فقط اپنی بات سے انہیں سروکار ہے،تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ آپ کی سہیلی نے آزادانہ طور سے فقط انسانیت و جمہوریت کا یک طرفہ فلسفہ پڑھا ہے،لہذا آپ ان سے کہیں کہ وہ اپنی قیاس کا رخ { Human being Nature } اور {Democracy} کے بعد {Biocracy} کی طرف موڑ لیں!


میری مراد وہ شعبہ جہاں انسان و حیوان میں شعور و نطق کے علاوہ کافی حد تک مماثلت مثلا بھوک پیاس،سردی گرمی،نر مادہ میں میل ملاپ اور ولادت وغیرہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انسانی جان کے تحفظ اور انکے حقوق کی بحالی کی طرح ان حیوانات کے تحفظ و حقوق پر بھی قوانین مرتب ہورہے ہیں،مگر اس کے باوجود ایک انسان کی ان حیوان سے شادی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی انسان ایسا کرتا ہے!


تو کیا جس طرح ایک سماج میں مسلم نن مسلم کے درمیان فقط مکانی یکجائی و سماجی مماثلت کی بنیاد پر آپ کی سہیلی کو انکے مابین شادی نہ ہونے پر اعتراض ہے،ان کو کبھی انسان و حیوان کے درمیان یکجائی و مماثلت کو دیکھتے ہویے "انسان حیوان سے شادی کیوں نہیں کرتا" اس پر کبھی اعتراض ہوا؟

ظاہر ہے انکی منطق {Logic} کے حساب سے اس پر بھی اعتراض ہونا چاہیے!مگر نہیں! 


سو اگر وہ یہاں فلاں چلاں {This That} کرکے انکار کریں گی!تو جس طرح انہیں اس کے انکار و دفاع کا حق ہے،اسی طرح آپ کو بھی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق دین اسلام و مقدس قرآن کے پیروکار کی حیثیت سے اسلامی قوانین کے مکمل دفاع کا حق ہے. 


امید کہ بیان کردہ باتیں آپ اور آپ کی سہیلی کے لیے تسلی و تشفی کا سامان ہونگی! 

راقم نے ایک ویڈیو میں اپنی بات رکھی ہے،اس کا لنک بھی ڈھونڈ کر شئیر کرتا ہے. 


دعاؤں میں یاد رکھیں! 

___________

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا 

١٣/٠٩/٢٠٢٢

muftitmufti@gmail.com 

+919122381549

+918789554895 


{نوٹ:اس "سوال و جواب" کو دیندار والدین اسکول کالجز اور کوچنگ کے مسلم ذمہ داران،طلبہ و طالبات اور پڑھے لکھے طبقہ تک صدقہ جاریہ جانکر عام کرنے کی زحمت کریں!شکریہ}

تبصرے