قرآنی آیات پر اشتعال انگیز اعتراض:توقیر بدر القاسمی الازہری
قرآنی آیات پر بھونڈا اعتراض
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
سورۂ طلاق آیت نمبر 4 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے والے الخ۔۔۔ اور ان عورتوں کی (عدت) بھی (یہی ہے) جنہیں ابھی ماہواری آئ ہی نہیں۔
حضرت مفتی صاحب! معاندین اسلام اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دیکھو قرآن کریم نابالغ لڑکی سے جنسی تعلق قائم کرنے کی تعلیم و اجازات دیتا ہے.
حضرت آپ اس کا تسلی بخش جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور ہوں.
حذیفہ پالن پوری گجرات
١٣/٦/٢٠٢٢
===============
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ!
معاندین اسلام کا اب فقط یہی کام رہ گیا ہے،کہ وہ سیاق و سباق{context}اور پس منظر و پیش منظر (اسباب و مقاصد) کو نظر انداز کرکے عوام کو مغالطے {Fallacy} میں مبتلا رکھا کریں اور بدقسمتی سے یوں پرامن شہریوں کو مشتعل کرنے کا کام کرتے رہیں !
آپ سماجی فلسفہ یاد رکھیں!
ایک ہوتا ہے 'لازمی و واجبی' امر {Necessary Act} ہر حال میں کیے جانے والے کام،اور ایک ہوتا ہے 'امکانی طور پر {Possibility} پیش آجانے والا عمل!
جو لازمی اور واجبی امور ہیں؛اسکی تعلیم و تلقین کی جاتی ہے اور جو امکان کے دائرے میں ہوتے ہیں اور پیش آجاتے ہیں؛اس کے لیے جواز یا عدم جوازLegal/Illegal} کا دائرہ طے کیا جاتا ہے.
متذکرہ بالا آیت کا تعلق اسی "ممکنہ پیش آمدہ عمل" سے ہے. جسے نشانہ طعن بنایا گیا ہے.
دراصل سورہ طلاق میں ان اسلامی معاشرتی و الوہی قانونی مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے،جو اسلام کے ساتھ ساتھ ہر ایک مہذب و پاکیزہ معاشرے کے لیے ناگزیر قرار پاتے ہیں.
نسل انسانی کی بقا کی خاطر نکاح کا ادارہ،میاں بیوی کے مابین آپسی تعلقات،ان کے درمیان میں تفریق اور بعد ازاں بچوں کا حسب نسب اور اسکی حفاظت سے متعلق قوانین و ہدایات پاکیزہ نسل انسانی کی بقا کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں.متذکرہ بالا سورہ میں ان سے متعلق ہی بھرپور ہدایات ربانیہ موجود ہیں.
ان ہدایات میں ایک ہدایت یہ بھی دی گئی ہے کہ ممکن ہے اگر کسی نابالغہ بچی کا مفاد دیکھتے ہوئے اس کا نکاح اسکے والد و گارجین کی ہمدردی بھری رضا سے بنا کسی جبر و دباؤ کے ہو جایے،یا وہ جسمانی لحاظ سے شادی لائق ہو،مگر حیض نہ آنے کی وجہ کر اسے بالغ نہیں قرار دیا جاسکتا.اور اسکے مفاد کے پیش نظر اسکے والد کی ہمدردی بھری رضا سے نکاح ہوجایے اور نکاح کے بعد پھر شوہر سے علیحدگی ہوجایے،یا شوہر وفات پا جایے،تو کیا یہ نکاح جائز ہوگا؟آیا اس کی تفریق عدت کو لازم کریگی؟ عدت ہوگی تو اسکی مدت کیا ہوگی؟
ان سبھی سوالات کے جوابات قرآن کریم نے اس کو جائز ٹھہراتے ہوئے فراہم کیے اور اسکے لیے اگلا اقدام یعنی عدت کی بہتر شکل کیا ہوگی؟ اسی کا حکم یہاں بتایا گیا؛جسے معاند نے اپنی کور مغزی کی وجہ سے کچھ اور سمجھ لیا!
واضح رہے نابالغہ کے ساتھ پیش آئے نکاح و طلاق کے علاوہ اگر کچھ اور دیگر قابل ذکر معاملات و حادثات پیش آتے ہیں،تو اس کا یہاں کوئی تذکرہ نہیں ہے.اسکے مباحث الگ سے اپنے اپنے مقامات پر مذکور ہیں.
الغرض یہاں غور سے دیکھا جایے تو یہ سمجھ میں آتا ہے؛کہ شادی کے ہوجانے اور بعد ازاں علیحدگی ہونے یا شوہر کی وفات پر،از روئے قرآن ان امور پر ایک جواز کا مہر لگایا گیا ہے.اس میں نابالغہ سے براہ راست جنسی تعلقات بنانے کی نہ تعلیم و تلقین کی جارہی ہے اور نہ بنا نکاح و ذمہ داری کوئی اجازت قرآن میں دی جارہی ہے.یہ محض معترض و معاند کی ایک دماغی اپج ہے.بس!اور کچھ نہیں!
نکاح کی بابت عمر و عقد کے حوالے سے گزشتہ اقوام و ملل کی تاریخ کیا رہی ہے،وہ رہنے دیں!انسانی سوسائٹی و تاریخ میں نکاحی عمر کی بابت کتنی قانونی تبدیلیاں ہوئیں ہیں،اسے بھی ہم ابھی رہنے دیتے ہیں!
ابھی معاند سے فقط یہ پوچھ لیا جائے کہ کیا آج معاصر ملکی قانون میں بھی ایسی تجاویز و ہدایات نہیں؛کہ "بال وِواَہ Child marrage"بچے بچی کی بچپنے میں شادی والے عمل کو لالچ،اغوا، بچی کی فلاح و بہبود اور صحت کے پیش نظر، ایک قابل تعزیر و سزا قانونی جرم مانا جایے،اسکے باوجود پھر بھی کیا ایسی شادی کو یکدم سے مطلق غیر قانونی،ناجائز اور غیر ثابت شدہ قرار{ null & void} دیا جاتا ہے؟ظاہر ہے،ایسا بالکل نہیں!
اگر قانونی کارروائی کے درمیان اس نابالغ جوڑے کی آپسی ملاپ سے استقرار حمل ہو جایے یا بچے کی پیدائش ہو،تو اسے اپنے ماں باپ کی جائز اولاد ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے؟نہیں!قانوناً ایسا ہرگز نہیں ہوتا!
تو کیا اس قانون پر بھی یہ معاندین یہی اعتراض کریں گے،جو قرآن مقدس کی سورہ اور آیات پر کیا ہے؟
آپ اس قانون {Child marrage prohibition act 2006} کی ساری شقیں دیکھ جائیں آپ کو محسوس ہوگا نابالغ و نابالغہ کے عقد نکاح اور بعد ازاں اسکی بقا یا تنسیخ کے حوالے سے وہی ساری باتیں مذکور ہیں جو اسلامی شریعت کے اندر "حق خیار بلوغ" کے عنوان سے نمایاں طور پر درج ہیں.
جب ملکی قوانین میں خود یہ ساری باتیں موجود ہیں.تو پھر قرآن کے امکانی پیش آمدہ عمل کو دائرہ جواز میں رکھنے پر اعتراض کیونکر؟کیا یہ حرکت عوام کو مغالطے میں مبتلا کرکے غلط فہمی پھیلانے اور ایک پر امن سماج کو مشتعل کرنے کی کوشش نہیں؟!
بہر حال آج ضرورت ہے کہ معاندین کی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کی جایے اور قرآنی ہدایات کو عقل و شعور کے فریم میں رکھ کر سنجیدہ عوام کے سامنے پیش کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں!امید کہ منظر نامہ بدلے گا. ان شاء اللہ
دعاؤں میں یاد رکھیں!
Mufti Touqueer Badr Alqasmi
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا
15/06/2022
muftitmufti@gmail.com
Noor-o-shawoor.blogspot.com
+918789554895
+919006607678
+919122381549
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں