اس فتنے کا اب کیا کریں؟ مفتی توقیر بدر القاسمی




اس فتنے کا مقابلہ کیسے کریں؟ 

مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!امید آپ خیر و عافیت سے ہونگے!


یہ درج ذیل سوال آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں.امید کہ آپ اطمینان بخش جواب دینے کی زحمت کریں گے.


شکریہ.


آپ کا ایک دینی بھائی.......

"الحاد کی ایک نئی قسم نمودار ہورہی ہے،جو کہتی ہے ٹھیک ہے ہم اللہ کو مانتے ہیں،مگر ہم سے اسلام کی پابندیاں برداشت نہیں ہوتیں...اگر اللہ ملحدوں سے یہ ساری پابندیاں اٹھالے اور آخرت میں ہمیں جنت میں داخل کردے تو ہماری مسلمانوں سے لڑائی ختم... (اب بندہ اس نئے فتنے کا کیا کرے؟)"



----------------------

وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ!

دیکھیے ملحدین کا یہ سوال یا مطالبہ سراسر احمقانہ و مضحکہ خیز ہے. دو جملوں میں کہا جایے تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا معاملہ بالکل ان نادانوں جیسا ہوتا ہے،جو دنیا کی سبھی یونیورسٹیوں کا وجود تو تسلیم کرتے ہیں؛ مگر ان کا ٹیسٹ پاس کرکے داخلہ لینا اور پھر پاس آؤٹ کرکے ڈگری لینے میں انہیں موت آتی ہے،مگر پھر بھی ضد ہے کہ ہمیں وہاں کی ڈگری و سند فقط انہیں تسلیم کرنے پر دیا جایے!جھگڑا ختم؟ 

کیا جنت میں داخلہ امر بالمعروف و نھی عن المنكر ٹیسٹ پاس کیے بغیر مل سکتا ہے؟

مزید وضاحت چاہیے تو عرض ہے کہ ہم آپ اچھی طرح سے اس بات سے واقف ہیں کہ یہ دنیا اور اس دنیا میں موجود ہر ایک شی کا اپنا ایک نظام(System) ہے.جس کے بل پر وہ اپنی اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے.

چناچہ ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے،تو اسے بھی زندہ رہنے کے لیے سانسیں لینا اور دودھ (Feeding) لینا پڑتا ہے. یہ اس کی زندگی کی بقا کا اپنا ایک نظام ہے.

اب اگر وہ یا اسکے والدین اسکا زندہ رہنا تو تسلیم کریں،مگردودھ پینے اور سانس لینے کی پابندیاں نہ تسلیم کریں اور نتیجتاً موت سے دوچار ہوجایے، پھر بھی زندہ لوگوں میں اسے داخل مانا جایے!اس کا اصرار ہو، تو سوچیے کیا ہوگا؟


آپ کہیں جاتے ہیں تو نظام آمد و رفت (Traffick Rules ) کا اپنا ایک اصول ہوتا ہے.

اب کوئی اس نظام و پابندی کو تسلیم نہ کرے،حادثے سے دوچار ہوکر وہ موت کے منھ میں چلاجایے اور پھر بھی زندہ لوگوں کے زمرے میں خود کو شمار کروانے کی ضد کرے!تو بتایے اس کا انجام کیا ہوگا؟


آپ اس دھرتی پر آئے ہیں تو آپ کو زندہ رہنا ہے اور اسکے لیے جد و جہد کرنا ہے.اگر آپ نے کسی وجہ سے خود کشی کرنے کا ارادہ و اقدام کیا تو آپ کو اس بابت قانون کی حکمرانی اور سزا کا سامنا کرنا ہے.


فرض کیجیے کہ اگر کسی ملحد بیچارے کو زندہ نہیں رہنا ہے،وہ الحاد و بے اطمینانی کی وجہ سے خودکشی کرنا چاہتا ہے،مگر اس بابت سزا اور قانون کے ڈر سے سب سے سہمے سہمے یہی کہتا  ہے کہ دیکھو ہم زندہ رہنا تو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ سانسیں لینا،کھانا پینا،سو نا جاگنا،نہانا دھونا،یہ سب ہم سے نہ ہوگا.یہ پابندیاں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں! یہ ساری پابندیاں اٹھالی جائیں اور ہر حال میں ہمیں زندوں کی فہرست میں ہی شمار کیا جائے،بھلے ہم مر کر، گل سڑ {Decompesd} کر بدبو پھیلانے والے بنتے رہیں!چلو ایسا کرلو!زندوں میں ہی داخل رکھو!تو خودکشی کے خلاف قانون بنانے والے اور ہمارے درمیان لڑائی ختم؟!تو کیا اسے کوئی صحیح الدماغ ٹھہرا سکتا ہے؟


آپ کا اور ملحد کا ایک ملک ہے.آپ اور ملحد وہاں رہتے ہیں.وہاں کی حکومت اورعوام کو مانتے اور بقایے باہمی کے اصول پر عمل پیرا ر ہتے ہیں.تو وہاں کا دستور بھی آپ کو اور ملحد کو ماننا ہوتا ہے.ایسا نہیں کہ آپ اور ملحد سب کو ماننے کا اقرار کریں،مگر" ہم سے دستور کی پابندیاں برداشت نہیں ہوگی،یہ پابندیاں اٹھالی جائیں "کا راگ الاپتے رہیں.

"ہم دستور و عوام کو تسلیم نہیں کرتے"! یہ کہتے اور من مانی کرتے پھریں.اور پھر اصرار یہ ہو کہ ہمیں وفادار شہریوں میں شامل رکھیں!اس سے ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان لڑائی ختم!

تو کیا آپ کو اور ملحد کو وہاں کا "وفادار شہری"(Loyal Citizen) مانا جاتا رہے گا ؟اور وفاداروں میں شامل رکھا جایے گا؟ 


اگر ان تمام تمثیلات میں ملحدین مطلوبہ جگہ و زمرے میں جگہ نہیں پاسکتے،بلکہ جیسی حرکت کریں گے،ویسا انجام ان کا مقدر ہوگا.تو پھر جہاں حقوق اللہ و حقوق العباد کا قدم قدم پر پاس و لحاظ مطلوب ہے،وہاں کسی دستور کو نہ ماننا اور "مطلوبہ جگہ جنت" کا مطالبہ کرنا کیا یہ کسی احمقانہ و بچکانہ مطالبہ سے کم ہوگا؟

اس پر طرہ یہ "اگر خدا اس پر سے یہ پابندیاں اٹھالے اور جنت میں داخل کردے تو خدا کے ماننے والے مسلمانوں سے لڑائی ختم" یعنی خدا وند قدوس، قادر مطلق، حاکم اعلی کو کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے وہ انکی مرضیات کے مطابق انجام پائے؟تف ہے ایسی سوچ پر!


بہرحال آپ ملحدین کی ایسی بیجا حماقت بھری باتوں سے ہرگز پریشان نہ ہوں!اپنے دین پر اطمینان رکھیں اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر مطمئن رہیں!


امید کہ ساری باتیں سمجھ میں آگئی ہونگی!

دعاؤں میں یاد رکھیں!


آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار

14/6/2022

Mufti Touqueer Badr Alqasmi 

تبصرے

  1. ان شاء اللہ الحاد پر سوال کا جواب یہاں شائع ہوتا رہیگا.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں