دین اسلام برتر کیونکر ؟مفتی توقیر بدر القاسمی
مفتی صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
راقم اس سے قبل بھی آپ کو مسیج کیا تھا.پھر سے یاد دلاتا ہے. آپ کو جیسا کہ بتایا تھا کہ ہماری بہن کی کچھ غیر مسلم سہیلیاں ہیں.ان کے درمیان مذہبی امور پر گفتگو ہوتی رہتی ہے.ایک دن ایک سہیلی نے کہا کہ سبھی دھرم یکساں اور سمان ہیں.کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں.جس دن یہ سمجھ لیا جایے گا سارے جھگڑے ختم ہوجایں گے.ورنہ بہتر و سوپر ثابت کرنے کے چکر میں کبھی چین سکون نہیں برپا ہونے والا.
اس تمہید کے بعد اس نے کہا کہ تمہارے قرآن پاک میں معجزے کا بیان ہے.اسکی مثال میں پہاڑ سے اونٹ کا نکلنا اور موسی علیہ السلام کا دریا میں راستہ بنالینا وغیرہ وغیرہ موجود ہے. اسی طرح ہماری وید کتابوں میں ہنومان جی کا اپنے ہاتھ پر ایک بستی کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا وغیرہ وغیرہ موجود ہے.جنہیں ہم مانتے ہیں. انکار نہیں کرتے، اگر انکار پر آکر بات افضل و super کی کروگی تو پھر تم ہمارے واقعے کا انکار کروگے اور ہمیں تمہارے قرآن کا اور پھر یہ اختلاف آگے بڑھ کر تنازع کی شکل اختیار کرجایے گا.
سو بہتر یہی ہے کہ سبھی دھرم کو سمان دو اور برابر جانو اس میں افضل و بہتر کی بات نہیں ہونی چاہیے!
اب میری بہن مجھ سے پوچھتی ہے کہ اگر ایسا ہی تو پھر اسلام کی دعوت و تبلیغ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ بصورت دیگر دھرم و مذاہب فتنہ فساد کا سبب بنتے دکھائی دیتے ہیں؟
مفتی صاحب آپ براہ کرم یہ بتائیں کہ بہتر اور درست بات کیا ہے؟تبلیغ اسلام اور اسلام کی برتری کا معقول طریقہ تفہیم کیا ہوسکتا ہے؟
آپ کا ایک دینی بھائی.... آندھرا پردیش
=====================
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ!
اچانک سردی بڑھ جانے کی وجہ سے طبیعت ناساز ہوگئی تھی. اسی لیے بروقت جواب نہیں لکھ سکا.الحمد للہ اب افاقہ ہے.اس سے لیے آج جواب لکھنے بیٹھا ہوں!
جواب سے قبل عرض یہ ہے کہ آپ اپنے بہن کی سہیلیوں کے سوال کا اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں عقل و دلیل{logic & reason} کو نظر انداز کرکے فقط مغالطے {fallacy} سے کام لیا گیا ہے.یہاں فکر و نظر کے اعتبار سے افضلیت و عدم افضلیت اور وجود و آزادی کے اعتبار سے مساوات و عدم مساوات کو خلط ملط کرکے اپنے مطلب کی بات کہی گئی ہے.آپ چند مندرجہ ذیل اصولی گفتگو کو دھیان میں رکھیں پھر غور کریں!
سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآنی فلسفہ "لکم دینکم ولی دین" کے مطابق سماج میں "اختلاف رائے" کبھی بھی "فساد و تنازع" کا سبب نہیں بنا کرتا.ورنہ آج اسی ملک میں الگ الگ سماج اور پنتھ و پارٹی کے لوگ نہیں دکھائی دیتے؛ جبکہ انکا وجود اور انکی حقیقت اسکی نفی کرتی ہے.ہاں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے ایسا کر دکھائیں تو کوئی بعید نہیں!
دوسری بات یہ دین دھرم کیا ہوتا ہے؟ آیا اسے ایک انسان بناتا ہے یا خالق کاینات کا دیا ہوا آدیش و حکم ہوتا ہے، جسے انسان پیغمبروں و راج دوتوں کی تبلیغ و تعلیم کے راستے اپناتے ہیں؟
تیسری بات یہ کہ کیا وہ دین ہمیشہ تاریخی طور پر ایک ہی رہا ہے یا تدریجی طور پر بنیادی باتوں کے علاوہ دیگر مظاہر و قوانین کے حوالے سے تبدیل ہوتا رہا حتیٰ کہ مطابق زمانہ {up date}ہوکر آخری و حتمی شکل میں عقل و نقل اور تاریخ و تدوین ہر لحاظ سے مستند{valid}دین کا حکم آیا اور اسے اپنانے کا سبھی کو مکلف کیا گیا، جس کے اشارات سبھی دیگر مذہبی کتب میں موجود ہیں.
ان اصولی گفتگو کے بعد قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا کسی دین کے وجود اور اسکی عمل کی آزادی میں سمان و برابری کے لیے یہ ماننا لازم و ضروری ہے کہ کسی کی کسی پر کویی فوقیت نہ رہے؟اگر ایسا ہے تو پھر ایک عام شہری اور اسی شہری میں سے ایک منتخب مؤقر شہری {Elected valid person} بحیثیت پی ایم ہندوستانی ہونے میں برابر ہونے کے باوجود وہ دیگر سارے ہم سر و ہم عصر پر فوقیت نہیں رکھتا؟جب ایک انسانی اصول و عمل میں یہ فکر و فلسفہ قبول ہے تو مستند الہامی امور پر عدم قبول کا فلسفہ چہ معنی دارد؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک انسان موجود الگ الگ دین ودھرم میں سے کسی ایک دین کو اپناتا ہی اسی وقت ہے؛جب وہ عمل و فکر اور عقل و نقل ہر لحاظ سے اسے سب سے بہتر و برتر {Super & upper}سمجھتا ہے.اور نفع انسانیت کے پیش نظر اسکی پر امن طریقے سے تبلیغ کا خواہاں ہوتا ہے.اس فکری و عقلی افضیلت و برتری کو وہ کبھی سماجی و مادی فساد و نزاع کا سبب نہیں بننے دیتا؛بلکہ وہ دوسرے دین و مذاہب کے وجود اور اسکی آزادی و عمل کا بھی قائل ہوتا ہے.ایک کلمہ گو صاحب ایمان کو قرآن کریم نے"لکم دینکم ولی دین" سے اسی کا مکلف بنایا ہے.اس بابت تاریخی شہادت قدم قدم پر مل جائیگی.
ہم آپ جس سبجیکٹ کو پڑھائی و تحقیق کے لیے جس کمپنی کو ملازمت کیلیے اور جس ملک کو بود و باش کے لیے اختیار کرتے ہیں،کیا اسے ہم آپ دیگر سجیکٹ، دیگر کمپنی دیگر ملک پر ترجیح نہیں دیتے اسے اوروں کے مقابل بہتر نہیں جانتے، مگر کیا اس سے کبھی آپس می کوئی تصادم و ٹکراؤ ہوا؟نہیں نا!
چناچہ دین اور اسے معقول جانکر اپنائے جانے کے سلسلے میں آج یہی فلسفہ روئے زمین پر موجود سبھی اقوام و ممالک کے درمیان مسلم ہے اور وہی قابلِ قبول عالمی نظریہ دین و تبلیغ بھی ہے.
دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے دین اسلام و عقیدہ توحید ایک فطری دین و عقیدہ ہے. وہ کروڑوں دیوی دیوتا اور الگ الگ متعین مقام و ذات کے بجایے ہر جا بلکہ اپنے شہ رگ سے قریب ایک قادر مطلق، علیم و خبیر سمیع و بصیر خالقِ کاینات پر ایمان و یقین رکھتا ہے.وہ ہر ایک اچھا یا برا کام کے لیے جزا وسزا اور ہر ظلم و عدل کے واسطے ملنے والے اجر و ثواب کا دن آخرت پر یقین رکھتا ہے.وہ اس بنیاد پر اس فانی دنیا میں وقتی ناانصافی یا جبر دیکھ کر کبھی مایوس نہیں ہوتا،اور نہ خود کشی کا اقدام کرتا ہے. وہ ساری انسانیت کو ایک خدا کا کنبہ جانتا ہے اور اسکی دنیا و آخرت بنانے کا مکلف ہوتا ہے. وہ ہر اک بندہ خدا پر اپنی علم و حیثیت کے مطابق خرچ اور راہنمائی کا ذمہ دار ہے.وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نازل کردہ کتاب اور انہیں لیکر آنے والے سبھی اعلٰی و اشرف انسان پیامبر و رسول پر ایمان رکھتا ہے اور بجایے اپنی مرضی اور اپنے جیسے عام انسان جس کی کردار و کیرکٹر کا کچھ پتا نہیں،ان رسل و پیامبر کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے. وہ جزا و سزا اور دیگر امور پر مقرر کسی کے نام دھونس رتبے رعب رشوت وغیرہ سے نہ متاثر ہونے والوں فرشتوں پر یقین رکھتا ہے.
لہذا ان حقائق کو نظر انداز کرکے سبھی خواہ آسمانی دین ہو یا انسانی فلسفہ حیات نام نہاد دین، ان سب کے درمیان برابری کرنا اور انکے مابین مطلق عدم افضلیت کی بات کرنا یہ سراسر واہیات و فضول ہے.
جہاں تک قرآن مجید میں پہاڑ سے اونٹ نکلنے اور ہندو کہانیوں میں ہنومان جی کا بستی اٹھانے کے درمیان انکے ماننے کے حوالے سے تقابل و تساوی کی بات ہے،تو اس سلسلے میں بھی بات وہی اصول و استناد کی ہوگی.
سبھی محققین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جو باتیں جن ذرائع {sources} سے آتی ہیں. تاریخ و تسلسل کے آئینے میں ان ذرائع کی صحت کی جانچ پڑتال ضروری ہوتی ہے!
ظاہر سی بات ہے قرآن کریم نے جن حقائق کو بیان کیا ہے ان حقائق کی درستگی کے حوالے سے قرآن ان کا ماخذ اور ذریعہ {source}ہے.اور ہندو وید پرانوں میں جو کہانیاں نقل ہویی ہیں انکا ماخذ وہ وید و پران ہیں.
آپ قرآن کا موازنہ باقی تمام مذہبی الہامی و غیر الہامی کتب سے سے کرکے دیکھ لیں.انکے تسلسل و استناد پر تاریخ کھنگالیں محسوس ہوگا کہ سب سے زیادہ مستند فقط قران کریم ہے.اسکے استناد کے لیے صرف اتنی سی بات کافی ہے کہ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال سے یہ حقیقت سبھی ماہرین کے نزدیک کے مسلم ہے کہ وہ جیسا حتمی شکل میں اترا تھا ویسا ہی آج بھی ہے.
اس میں ایک حرف کا نہ تو کہیں کوئی فرق دکھا سکتا ہے اور نہ کسی قسم کی تبدیلی کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے.اسی کے ساتھ ساتھ جن ذات اقدس پر اس کا نزول ہوا انکی ایک ذات بابرکات اور ان سے وابستہ ہر ایک حقائق و واقعات انکی نششت و برخاست الغرض سبھی کچھ ریکارڈ پر ہیں اور محفوظ ہیں. یہی نہیں انکے بعد والے انکے ساتھی و صحابہ کرام جنکے توسط سے یہ سارے عالم میں پھیلا، اس حوالے سے انکی ہر ایک قابل لحاظ بات ریکارڈ پر موجود ہے.
جبکہ دیگر کتابیں خواہ وہ آسمانی ہوں یا غیر آسمانی انکے متعلق ایسا دعویٰ ہرگز نہیں کیا جاسکتا،ہندو بھائیوں کے وید پرانوں کے متعلق کسی ہندو سکالر کو خود اس کے کتاب کی حتمی تاریخ کا کوئی پتہ نہیں کہ آیا وہ اتاری گئی،یا پھر لکھی گئی آیا وہ کب کب لکھی گئ اور کس کس نے لکھی؟کس کے اشارے یا ایما پر لکھی گئی؟ اس لکھنے والے کی خود کی کیا حیثیت اور شناخت تھی؟اس متعلق ریکارڈ میں کیا کچھ موجود ہے؟آیا جو کچھ لکھا گیا تھا وہی ہے یا رد و بدل کے بعد کچھ کا کچھ ہوگیا!
حقیقت یہ ہے کہ الگ الگ ورزن الگ الگ باتیں بتاتی نظر آتی ہیں.بسا اوقات وہ زمانے کے انقلاب سے متاثر دکھائی دیتی ہیں! یہی وجہ ہے کہ آج تک انکے یہاں یہ طے نہیں ہوسکا کہ آخر ایک انسان ہندو ہوگا تو کیسے اور نہیں تو کیونکر؟ آخر ایک انسان کن کن باتوں کو اپنا کر اور کن کن باتوں کے انکار سے ہندو دھرم کے اندر داخل یا خارج سمجھا جایگا؟
اب ظاہر ہے کہ جہاں اتنا سارا جھول جھال ہو اس کے اندر کی باتیں کیونکر اس کتاب کے حقائق کے برابر ہوسکتی ہیں؛جس کا زیر زبر تک نزول کے وقت سے لیکر آج تک جوں کا توں محفوظ ہے.
اس لیے آپ اپنی بہن کو سمجھادیں کہ انکی سہیلیوں کا اس بابت بھی دعویٰ و مطالبہ سراسر مغالطے کا شاخسانہ ہے.
امید کہ ان ساری تفصیلات سے آپ سمجھ گیے ہونگے کہ دین اسلامی کی برتری اور اس بابت ایک کلمہ گو کا عقیدہ یہ کسی فساد ونزاع کا باعث ہرگز نہیں!
نیز اسلام کی معقولیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ جس کتاب پر مبنی ہے اسکی معقولیت،اسکی اہمیت اور تاریخی استناد و استدلالی قوت استنباط اس درجے کی ہے،کہ اسکے سامنے کسی اور کا مقابل ہونا تو دور اس کا سامنا کرنا اور ٹکنا تک محال و دشوار ہے.
یونہی نہیں "ان الدین عنداللہ الاسلام"اللہ کے نزدیک مقبول و مسلم دین اسلام ہے(آل عمران :١٩)اور "انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون"ہم نے ہی قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اسکے محافظ ہیں( الحجر:٩)کہا گیا ہے.
ھذا عندی والصواب عنداللہ!
Mufti
Touqueer Badar Qasmi Azhari
توقیر بدر آزاد القاسمی الازہری ڈائرکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا.
{نوٹ:راقم کا یوٹیوب چینل ہے "توقیر بدر آزاد" یا M T Badar "سے سرچ کرکے آپ اس سے جڑ کر مزید معلومات وقتا فوقتاً لے سکتے ہیں}
16/01/2022
muftitmufti@gmail.com
t.me/fatawatouqueeri
noor-o-shawoor.blogspot.com
@Mtbadr2 on twitter
@touqueer_badr instagram
ماشاء اللہ بہت خوب، مفتی صاحب اگر اور بھی آسان اور عام بول چال کی زبان میں ہوں تو اور بھی پڑھنے والوں کو آسانی ہوگی
جواب دیںحذف کریںضرور ان شاء اللہ
حذف کریںبہت خوب ۔ ہدایت کیلئے کافی ہے ۔ مگر دیگر مذاھب کی کتابوں کی تحریفات ۔ان کے راویوں کے سقم اور ان کتابوں میں آخری نبی اور آخری مستحکم کتاب ہدایت کی پیشین گوئی کا خود انہی کی کتاب کے حوالہ سے پیش کرنے سے تقویت پہنچتی ۔والسلام
جواب دیںحذف کریں