ملحدین کا اعتراض خدا پالہنار یا داروغہ؟ توقیر بدر القاسمی
مفتی صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ!
امید کہ آپ خیر و عافیت سے ہونگے!عرض مدعا یہ ہے کہ ابھی ایک ویڈیو ہمارے دوست نے بھیجا،اس میں غالباً حیدرآباد کے کسی منچ پر چند مذاہب کے دھرم گرو اور ملحدین جمع ہیں.وہ سب کس مقصد سے جمع ہویے ہیں یہ واضح نہیں ہوسکا،ہاں انکی باتوں اور سامعین کے سوال سے محسوس ہوتا ہے وہ سبھی دین دھرم اور خالق کاینات کی کمزور وکالت اور نفی{Deny}کرنے جمع ہویے ہیں.
اس میں ایک شخص دین اسلام یا ممکن ہے کسی اور دیگر دھرم کا نام لیے بغیر اسے کچھ اس طرح سے ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنی بات رکھتا ہے" آج دیکھ لیجیے جہاں جہاں دھرم ہے.مذہب ہے.وہاں غربت ہے،افلاس ہے.آپس میں مار کاٹ ہے لڑائی بھڑائی ہے.اور جہاں جہاں سائنس ہے وہاں ترقی ہے،شانتی ہے"
اسکے بعد وہ کہتا ہے آخر ہم ایسے کو کیوں پوجیں جو داروغہ بنا پھرتا ہے.عبادت کو نشانہ بناتے ہوئے کہتا ہے کہ جو خوش رہنے کے لیے ہماری جی حضوری چاہتا ہے.زکوٰۃ صدقات وغیرہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہتا ہے،کہ وہ ہم سے رشوت لیتا ہے.امیروں سے خوش ہوتا ہے،غریبوں کو کنارے کرتا ہے.ختنہ وغیرہ کو نشانہ اعتراض بناتے ہویے کہتا ہے وہ ہم سے تبھی خوش ہوتا ہے جب ہم اپنا انش کاٹ کر اسکے حوالے کردیں!بھلا ایسا کویی پالنہار ہوتا ہے؟یہ تو داروغہ ہوا،پالنہار ایسا نہیں ہوسکتا!اس کی ان باتوں پر بیٹھے سبھی اسٹوڈنٹ تالی بجاتے ہیں اور مزید سبھی اس کی تایید کرتے نظر آتے ہیں.
گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر شانتی اور سکون و ترقی چاہتے ہو تو کسی دین اور خدا اور انکے احکامات کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں.انکی کوئی حقیقت نہیں ہے. بس بھرم کے طور پر جہالت و تاریکی کے عہد میں لوگوں نے پال لیے تھے.سائنس سے کام چلاؤ اگر انسانیت مخالف دھرم و مذہب کے گورکھ دھندے میں رہے تو کہیں کا نہیں رہوگے!
آپ سے گزارش یہ ہے کہ ان جیسوں سے جب کبھی سامنا یا مکالمہ ہو تو ان سے کس طرح سے نمٹ سکیں!آپ از راہ عنایت وہ نکات ضرور بتانے کی زحمت کریں،تاکہ نسل نو میں ارتداد و الحاد کی آبیاری سے وہ باز رہیں!
امید کہ آپ وقت نکال کر اس پر توجہ دیں گے.
آپ کے جواب کا منتظر ایم ساجد خلیل آندھرا پردیش
________________________
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ! رب کریم کا بے پایاں احسان و کرم ہے.واضح رہے مادہ پرست عقل محض کے پروردہ ملحدین کی طرف سے رکھی گئی باتیں اور داورغہ والا بیانیہ {Narrative} یہ کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے.تاریخ الحاد اس سے بھری پڑی ہے.
علم وعقل سے عاری، پروپیگنڈہ سے متاثر،ظاہر بیں مادہ پرست انسان کی باتیں ایسی ہی بے تکی ہوتی ہیں.
اب انکو کون بتائے کہ نام نہاد شانت و پرامن ملکوں اور ہنگامہ خیز و فساد سے دوچار خطوں کی تاریخ اور وہاں ہونے والی خون ریزی کے اصل اسباب و وجوہات کیا کیا ہیں؟
کیا یہ فقط دین اپنانے و سائنس ترک کرنے کا ایک سادہ سا مسئلہ {Simple case}ہے؟یا یہ دین کو ترک کرکے بے لگام مادی منفعت و حیثیت منوانے والے سائنس کے آقا و غلام،حرص و ہوس کے پجاری،ہتھیار فروشوں کی منصوبہ بند کارستانی{Well planned Acton} ہے؟
نام نہاد سائنس سے قبل کی دنیا اور بعد کی دنیا کیسی تھی اور ہے؟ کیا اس پر مغرب کے ہی سینکڑوں مقالات کے بعد مزید کسی مقالہ اور لیکچر کی ضرورت ہوسکتی ہے؟
ان جیسے سے نمٹنے کے لئے اصولی طور پر پہلی بات سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھیں کہ ان جیسے لوگ اپنی بات آخر کس طرح سے رکھتے ہیں؟اسے اصول کی روشنی میں پرکھیں!
اصول یہ ہے کہ جو چیزیں ریاضیای کلیات،تجربات اور مشاہدات کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں.وہ سائنس و طبیعیات کے زمرے میں آتی ہیں.
انکے علاوہ جو ان ریاضیاتی کلیات،تجربات اور مشاہدات سے ماورا آسمانی و الہامی ہدایات ہیں،وہ سائنس کے دائرے سے باہر،بلکہ اسکی قوت سے پرے اور مابعدالطبیعیاتی احکامات کہلاتی ہیں.
انکے متعلق انصاف پسند سائنسدان یہی کہتے ہیں اور اصولاً یہی ہونا چاہیے،کہ جب ہم ان کا تجربہ و مشاہدہ نہیں کرسکتے،تو اسکے متعلق سائنسی اصولوں کے مطابق اسکے وجود یا نفی کے متعلق بھی کچھ نہیں سکتے،گویا تجربے سے باہر مابعدالطبیعیاتی وجود کے متعلق ان کا معاملہ توقف ہے.اور یہی درست بھی ہے.ہاں علامات و قیاسات بلاشبہ وجود باری تعالیٰ پر محقق و مبرھن ہیں.
اسکے بعد یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اسلام میں طبیعیات و مابعدالطبیعیات دونوں ہی مطلوب ہیں.دنیوی ایجادات و ترقیات کے لیے عقل رسا کی بدولت ان تھک محنت سے ریاضیاتی کلیات و تجربات اور مشاہدات کام میں لایے جاتے ہیں.اور جہاں عقل اپنے حدود سے باہر درماندہ و عاجز رہ جاتی ہیں،وہاں وحی الہی انکی دست گیری کرتی ہے.یوں دین اسلام کو دونوں ہی مطلوب و عزیز ہیں اور یہی اسلام کی وہ خوبی ہے،جسے دیکھ کر سبھی اسکی طرف کھینچے چلے آتے ہیں.
ان تمہیدات کے بعد عرض ہے کہ ان معترض ملحدین کا معاملہ یہ ہوتا ہے،کہ یہ پہلے سائنس جو خالص ریاضیاتی تجربے و مشاہدے پر مبنی ایک فزیکل و تجرباتی{Phisical & practical}علم و فن ہے،اس کے مقابل،یہ اس سے ماورا اور دایرہ سائنس و فزکس سے باہر،میٹافزیکس {Metaphysic}یعنی مابعدالطبیعیات (دین، خدا، روح، عقائد، جذبات، ملایکہ، جن، اچھایی، برائی، جنت، جہنم، حشر نشر، وغیرہ وغیرہ ) کو رکھتے ہیں.
پھر بیان کردہ مابعدالطبیعیات کی تجربہ و مشاہدہ میں نہ آپانے کی بنا پر جسارت کرتے ہوئے بر بنایے جہالت مکمل طور سے نفی و انکار کرتے ہیں.اس کے بعد کمال حماقت انکی دیکھیے کہ یہ جس کی نفی کرتے ہیں،اپنی طبیعیاتی دنیا کو سمجھانے کے لیے بطور دلیل انہی انکار کردہ مابعدالطبیعیات و میٹافزیکس کو پیش بھی کرتے رہتے ہیں.
اسی کے ساتھ ساتھ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ دین و خدا کے نام پر جن جن باتوں کے انکاری ہوتے ہیں،ان سبھی باتوں کے ذاتی و عوامی زندگی میں نہ صرف قائل،بلکہ اسکے پکے مبلغ نظر آتے ہیں.گویا قدم بقدم تضاد ہی تضاد اور منافقت ہی منافقت!اللھم احفظنا منہ!
چنانچہ یہیں دیکھ لیجیے کہ یہ جس 'دین و خدا' کے وجود کا انکاری ہے،یہ سراسر میٹافزیکس و مابعدالطبیعیات{دائرہ سائنس و تجربات سے باہر} کا معاملہ {case} ہے.اور جس سائنس کا مبلغ و پرچارک ہے،وہ فزکس و طبیعیات کا معاملہ {case}ہے.
اس کے بعد وہ جن جن احکامات کا سہارا لیکر انسانی جذبات سے کھیلتے ہوئے تالی بجوارہا ہے.وہ سراسر مابعدالطبیعیاتی ہے.یعنی اس تضاد گو کے بقول عبادت ''جی حضوری'' ہے،اس سے "خوشی" ملتی ہے،صدقہ زکوٰۃ یہ تو "رشوت" ہے.اور بنام صدقہ و زکوٰۃ رشوت دینے والے کو "تکلیف" ہوتی ہے.
اب سوال یہ ہے کہ ملنے والی ''خوشی'' اور ہونے والی ''تکلیف'' یہ سبھی تو ایک ''جذبہ و کیفیت'' ہے.اسے اس نے کس تجربہ گاہ{Lab}میں تجربے و مشاہدے سے ناپ تول کر دیکھا ہے اور پھر اسے مضر انسانیت و نقصان دہ قرار پایا ہے؟اسکے برعکس احساسات کیا ہیں؟ اسے بتانے سے وہ قاصر کیوں؟
اگر ان احساسات کو بعد از تجربات کہیں متشکل پایا ہے،تو وہ تجربات و مشاہدات عام کرے!
سوال یہ بھی ہے کہ آخر اس میٹافزیکس کو وہ فزکس کے دائرے میں کیونکر لاسکتا ہے؟
کیا یہ تضاد اسکی خردماغی کی علامت نہیں؟
اگر وہ اسے اپنی ذاتی احساسات {Personal feeling} سے کشید کرکے دکھانا چاہتا ہے تو،کیا اس نے کبھی اس جذبے و عقیدے کے ساتھ خود عبادت کی ہے،یا زکوٰۃ کسی کو دی ہے،جس عقیدے و جذبے سے ایک "کلمہ گو" اپنی عبادت بجالاتا ہے یا کسی ضرورت مند و مستحق کو زکوٰۃ دیا کرتا ہے؟ کیا کسی کلمہ گو کو اس نے ایسی کسی تکلیف و کیفیت کا اظہار کرتے دیکھا ہے؟یا فقط ضد وعناد میں آکر پیدا کردہ مغالطے سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے؟کیا اسے فقط دینے والی کی مفروضہ تکلیف نظر آتی ہے؟اگر ایسا ہی ہے تو پھر لینے والے کی حقیقی خوشی دیکھنے سے وہ آخر قاصر کیوں؟
اسی طرح اسے ختنے پر اعتراض{objection}ہے،کہ یہ اپنے اعضا کاٹ کر سپرد کرنا ہے؟ پتا نہیں یہ کہاں سے اس نے سمجھا ہے کہ یہ 'اعضا کی سپردگی' ہے.اسلام میں اس کا تعلق تو 'پاکی و صفائی' پر مہمیز کرنے والی فطرت و جبلت{Nature & Instinct}سے ہے.
یہ اور بات ہے،کہ اس پاکی صفائی کا تعلق بھی میٹافزیکس سے ہے،جسے یہ معترض فزکس کے کسی بھی اصول پر ناپ تول کر کسی تجربہ گاہ {lab} میں دیکھنے سے سراپا قاصر ہی ہوگا.
رہ گئی بات انکی ذاتی و عوامی زندگی کی،تو جیسا کہ بتایا گیا کہ ان انکار و اعتراضات کی روشنی میں انکی زندگی واقعی مکمل تضاد و نفاق سے پر ہوتی ہے.
چناچہ یہ براہ راست غریب و نادار کو الہامی و آسمانی ہدایت کے نتیجے میں ملنے والی زکوٰۃ و صدقات پر تو ٹسو بہاتے اور بلبلاتے نظر آتے ہیں،مگر انسانی سرکار کی طرف سے عائد کردہ ہر قسم کی ٹیکس کی یہ بھرپور وکالت کرتے نظر آتے ہیں.اس کے لیے الٹے سیدھے قوانین سازی تک کر ڈالتے ہیں. جنہیں آیے دن ترمیمات و تبدیلات سے گزرنا پڑتا ہے.
طرح طرح کے NGOs و آرگنائزیشن ان غریبوں کے نام انکے دم سے قائم ہیں.جہاں واسطہ در واسطہ کتنا غریبوں کا بھلا ہوتا ہے اور کتنا ان این جی اوز چلانے والے کا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں!
چناچہ انکے اعتراض و انکار کا کمال تو تب ہوگا،جب وہ بالکلیہ ان کی مخالفت و بائیکاٹ کریں!اور نتیجتاً ہر قسم کی سہولت و رعایت سے براہ راست یا بالواسطہ خود کو دست کش اور محروم رکھیں!مگر نہیں ایسا ہرگز دیکھنے کو نہیں ملے گا.
اسی طرح انہیں ختنے اور اس سے ہونے والی تکلیف پر اعتراض ہے،تو کیا بال ناخن وغیرہ کاٹنے پر بھی انہیں ویسے ہی اعتراض ہوتاہے؛جن کی افادیت آج طبی و نفسیاتی ہر لحاظ سے مسلم ہے. کیابچپن میں لگنے والے تکلیف دہ ٹیکے پر اور اپنڈکس کی سرجری پر بھی وہ یہی منطق {Logic} بگھاڑتے ہیں؟یا ان سب دوا و علاج کے پیدا کنندہ سرمایہ داروں کے ہاتھوں کھلونا بنکر اسکے مبلغ و پرچارک بنے نظر آتے ہیں؟
آخر ایک جیسے امر و نتیجے پر یہ دوہرا رویہ کیوں؟وہ خدائی فیصلے کے ضمن میں آیے تو اس پر اعتراض اور انسانی فیصلہ ہو تو سر تسلیم خم!آخر اسے تضاد و منافقت نہیں تو اور کیا کہیں گے؟
اور آخر میں ایک اصولی بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ دین اسلام میں بندے کو جن جن احکامات و ہدایات کا پابند بنایا گیا ہے.انکے فوائد انجام کار لوٹ کر ان بندوں کو ہی ملتے ہیں.یہ سراسر رحمت خداوندی و عطیہ ربانی ہے.
استعاراتی زبان میں اسلامی بیانیے کے مطابق بنیادی طور پر رب کا تعلق انکے بندے سے ایک ماں اور اسکی اولاد،بلکہ ان سے بھی بڑھ کر رحمت و شفقت والا تعلق ہوتا ہے.کویی داروغہ یا آفیسر والا ہرگز نہیں!
اس حوالے سے آپ دو ٹوک قرآنی فیصلہ{سورہ الغاشیہ آیت نمبر 23}اور مسلم شریف{باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی} میں مفصل دیکھ سکتے ہیں.
دعا کریں رب کریم ہم سب کو صواب و سداد پر قایم و دائم رکھے آمین!
Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق سوپول بیرول دربھنگہ بہار سابق لیکچرار براے قضا و افتا المعھد العالی پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا.
17/11/2021
nurwshawoor@gmail.com
+919006607678
+919122381549
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں