ہر بستی میں مسجد کیوں؟توقیر بدر القاسمی آزاد
#ہر_بستی_و_محلے_میں_مسجد_بنانے_کی_کیا_ضرورت_ہے؟
مفتی صاحب السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ!
ابھی حال ہی میں آپ نے ایک دینی جلسے میں "مسجد اور مسلمان اور انکے مابین رشتے" پر مختصر وقت میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سماج و سائنس دونوں پہلو سے بڑی اچھی باتیں بتائیں اور حاضرین سے اسے اپنانے کی اپیل appeal کی.ہم چند ساتھی بھی وہاں شریک جلسہ تھے.ہم لوگوں نے آپ سے ایک بات کو لیکر جلسے کے آخر میں ملاقات کرنے کی ترتیب بنائی،مگر آخر میں معلوم ہوا کہ آپ تو بیان کے بعد وہاں سے نکل چکے.
بہرحال عرض مدعا یہ ہے کہ آپ نے مسجد کے متعلق یہ کہا کہ مسلمانوں کے لئے یہ بالکل پاور ہاؤس کا درجہ رکھتی ہے.یہ اسلامی شعائر و مخصوص علامات، بلکہ مسلم کمیونٹی کی جان اور پہچان ہے. یہ ان شعائر میں یہ ایک اہم عظیم اور قابل احترام علامت ہے.پھر آپ اسکی دلیل بھی دیتے رہے!
تاہم میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم یا ناستک atheist یہ کہے کہ تمہارے لیے تو روئے زمین کی ہر جگہ کو مسجد قرار دیا گیا ہے.جہاں چند منٹوں میں اپنی نماز ادا کرکے اپنی عبادت ادا کر سکتے ہو،تو پھر باضابطہ ہر بستی ہر محلے میں کسی ایک جگہ کو گھیر کر مسجد بنانے اور اس جگہ کو اسی کام کے لئے انگیج کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ جگہ، یہ پیسہ اور یہ عمارت ان سب کو انسانیت کے نفع بخش کام میں کیوں نہیں لا سکتے؟ تو اس قسم کے سوال کرنے والوں کے لیے معقول reasonable جواب کیا ہوسکتا ہے؟ براہ کرم اسکی وضاحت کردیں!
میری wish اور دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کو سلامت رکھے اور یوں ہی آپ ہمیں علمی باتوں سے آگاہ کرتے رہیں!آمین!
آپ کا ایک دینی بھائی... ایم ساجد دربھنگہ بہار
============================
وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ!
آپ نے جو کچھ پوچھا ہے،اس حوالے سے میرا ذہن جہاں تک ساتھ دے رہا ہے،یاد پڑتا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ اور فیصلہ کے پیش نظر یہ سب شگوفہ خوب چھوڑا گیا.میڈیا پر یہ بیانیہ {Narrative} چلایا گیا اور اس کے بعد عام لوگ _کیا طلبہ کیا نیتا _سبھی ان باتوں کو اپنے اپنے انداز سے اپنے اپنے حلقے سرکل{circle} میں دہرانے لگے.
خیر ایسوں کو تو خود سوچنا چاہیے کہ اگر ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ بھگوان ہر جگہ ہوتے ہیں.تو چوک چوراہے اور عام راستے یہاں تک کہ زبردستی دوسرے کی عبادت گاہ تک جگہ جگہ مندر بناکر یا بتاکر ان جگہوں کو گھیرنے یا انگیج کرنے کا کیا فائدہ؟ کیوں نا اپنے گھر اور دھرم سے اس شبھ کام کا آغاز کریں کہ یہ جگہ یہ عمارت اور اسکے نام پر دان پن {Donation} سب کچھ انسانیت کے نفع کے لیے خاص کردیں!پوجا پاٹ تو کہیں بھی اپنے اپنے گھر دوار میں بھی کرلیں گے!اس کے بعد دیگر مذاہب والوں سے انکی عبادت گاہوں کے متعلق بات کریں،اور بھگوان ہر جگہ نہیں تو پھر ان میں اور بھکت انسان میں فرق کیا رہا؟؟مگر نہیں،وہ اتنا نہیں سوچتے،کیونکہ اتنا دماغ لگانے کی فرصت کہاں؟میڈیا یا نیتا نے جو کہدیا،ان جیسوں کے لیے بس وہی کافی ہے.
ہاں ہوسکتا ہے کہ کویی یہ کہدے کہ مندر کو بھی ہم اسی طرح جگہ گھیرنے والا مانتے ہیں اور ملحد و ناستک بنکر کوئی ان سبھی کو یونہی ایک مان کر بیجا شئ قرار دے اور انسانیت انسانیت کا جاپ {chanting} کرتا رہے. جیسا کہ آپ نے بھی غیر مسلم کے ساتھ ناستک کا مزاج و رویہ لکھا ہے،تو عرض ہے کہ ہمیں پہلے یہ بتایا جایے کہ ہماری مساجد کی جو تاریخ رہی ہے کیا اس میں عبادت کے ساتھ ساتھ نفع انسانیت کے علاوہ بھی کوئی کام انجام دیا گیا ہے؟ اگر تعلیم سے لیکر صحت تک اور تحفظ سے لیکر مدنیت تک یہ سب نفع انسانیت کے نمایاں عنوان ہیں.تو دھیان رہے کہ ہماری مساجد نے عبادات الہیہ و اطاعت ربانیہ کے ساتھ ساتھ ان کاموں کو صرف انجام ہی نہیں دیا،بلکہ دنیا جہاں کو اس راہ کی خوب خوب راہ نمائی بھی کی ہے!
اب جہاں تک احادیث میں ساری روئے زمین کو مسجد بتانے اور پھر کسی پاک صاف غیر متنازع مخصوص جگہ پر مسجد بنانے کی بات ہے،تو اسے ایسے سمجھا سکتے ہیں_بشرطیکہ دماغ حاضر ہو اور وہ {Logic & reasoning} دلیل و منطق کی بنیاد پر سمجھنا چاہیں_کہ جیسے ہم آپ کو آئین {Constitution} نے ملک عزیز کا شہری {Citizen} قرار دے کر پورے کو ملک کو ہمارا {Home land} مسکن قرار دیا ہے،کیونکہ اس ملک کے بنانے سنوارنے والے ہم ہیں اور یہ ملک ہمارا ہے تو ہم بنا کسی امتناز لون و لسان اور دھرم و جات پات کے آزادی سے کہیں بھی آجا سکتے ہیں.سفر کرسکتے ہیں،کہیں بھی بے فکر ہوکر اپنا کاروبار اور ملازمت کر سکتے ہیں،مگر پھر بھی ہم سکون و قرار کے لیے بچوں کی تعلیم و ترتیب اور شادی بیاہ کے لیے،خاندان پریوار کی حفاظت اور میل ملاپ کے لیے ایک جگہ باضابطہ اپنا گھر بناتے ہیں.محلہ بساتے ہیں اور ہمیں کویی کچھ نہیں کہتا،بلکہ سبھی اسے اپنا بنیادی حق {Fundamental Right} سمجھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں.
ٹھیک ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے کہ ہم اگر سفر میں ہوں تو اپنے رب کو جہاں ہیں،وہیں وضو کرکے قبلہ رو ہوکر قیام و رکوع اور سجود و تحیات سے یاد کرسکیں،دین و شریعت میں اسکی اجازت {permission} ہمیں دی گئی ہے.اور یہی معقول بھی ہے،کیونکہ ہمارا پروردگار تو کسی خاص جگہ میں محدود نہیں!تاہم حالت حضر میں سکون و قرار کے ساتھ نماز و اعتکاف اور قیام جماعت و اجتماعی امور برائے مسلمان و انسان کے لیے باضابطہ ہر مسلم آبادی میں مساجد بنانے کا حکم اور تاکید{order & compulsion} کی گئی. نیز یہ بجائے خود حقوق انسانی {Human rights} میں ایک اہم حق {supreme right} کا درجہ بھی رکھتا ہے.اور انہیں آباد رکھ کر روحانی و جسمانی ہر صورت ہمیں آباد رہنے کا شرعا پابند بھی بنایا گیا ہے.جیسا کہ راقم نے تفصیل سے اپنے دس منٹ کے بیان میں ان باتوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی.
ظاہر ہے جب ہمارے سوچنے سمجھنے اور کسی چیز کو دیکھنے پرکھنے کا مثبت و معلوم زوایہ {point of view} اس طرح کا ہوگا،تو پھر اعتراض کی کوئی بنیاد نہیں بچے گی!ویسے ملحد جب اتنی انسانی نفع و آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں،تو پھر ملکی سرحد Boader کا مسئلہ کیوں نہیں زیر بحث لاتے؟ انہیں کیوں نہیں ختم کرواتے؟کیا یہ کسی انسان کو پنجرے میں قید ایک پر ندہ بنانے سے کم ہے؟ کیا یہ اہانت انہیں نظر نہیں آتی؟
امید کہ مذکورہ بالا سطور سے آپ اپنے سوال کا جواب پاگیے ہونگے!
اپنی مخصوص دعاؤں میں یاد رکھیں!
Mufti. Touqueer Badar Qasmi Azhari
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا.
٢/اکتوبر /٢٠٢١
muftitmufti@gmail.com
+919122381549
+91 9006607678
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں