ٹیچرز ڈے (یوم اساتذہ) کی حقیقت و اصلیت:توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری




ٹیچرز ڈے منانا شرعا کیسا ہے؟ 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!عرض یہ ہے کہ ٹیچر دے منانا شرعا کیسا ہے؛جبکہ انگلش میڈیم اسکولوں کے ساتھ ساتھ اردو اسکول والے بھی ٹیچر دے مناتے ہیں اور اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں اب یہ مدارس میں بھی آچکا ہے طلبہ اساتذہ کو اس موقع پر گفٹ کرتے ہیں اور مدارس کے بعض طلبہ بھی ٹیچر دے مناتے ہیں. بسا اوقات اس کو اسلامی و غیر اسلامی اور پھر انہیں دین موافق یا دین مخالف بناکر پیش کیا جانے لگتا ہے.

 ایسی صورت میں بتائیں کہ اس کی اصل شرعی حیثیت کیا ہے؟براہ کرم مدلل،مفصل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں! 

فقط والسلام 

محمد افتخار احمد جھارکھنڈ 

_____________________________

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! 

مذکورہ بالا سوال کا جواب یہاں چند تنقیحات کا متقاضی ہے.

اولا ڈے Day کی حقیقت اور ان ڈیز Days کی قسمیں!

ثانیا ٹیچرز ڈے کی شرعی حیثیت!ثالثا مباح کا دایرہ ترک و اختیار! 


اصل مبحث کے آغاز سے قبل یہ بتادینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اچھی طرح سے واقف ہیں کہ آج کل آیے دن کہیں نا کہیں قومی و بین اقوامی ڈیز Days کا اہتمام اور اجتماعی و انفرادی سطح پر اسکا انعقاد ہوتا رہتا ہے.قطع نظر اس سے کہ ان کے کیا کچھ اثرات سماج و سوسائٹی پر مرتب ہوتے ہیں.


اسلام مذہب کی سب سے بڑی خصوصیت اور خوبی یہی ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو انہی باتوں کی ہدایت کرتا ہے،جن سے انکے لیے دین ودنیا کی بھلائی وابستہ ہوتی ہے اور ان باتوں سے روکتا ہے جن سے انکا کسی نا کسی درجے میں نقصان پیوست ہوتا ہے یا مرعوب ذہنیت کی نتیجے میں خالی خولی غیروں کی بھونڈی نقالی جڑی ہوتی ہے.جس سے نقل کنندہ کی سماجی و ثقافتی اور بسا اوقات دینی حیثیت مجروح ہوتی ہے. 


مذکورہ تمہید کے بعد "مروجہ ڈے"کی حقیقت اور اسکے منانے کے پیچھے تحریک و ترغیب کیا ہوتی ہے. کم از کم اسے سمجھی جا سکتی ہے. 


واقف حال جانتے ہیں کہ بہت سارے کام انفرادی طور پر کرنے والے ہوتے ہیں،لیکن جب ہماری سوسائٹی کی اکثریت اپنے اپنے ان ضروری و انفرادی کاموں سے بے توجہی برتنے لگتی ہے تو فطری طور پر یہ بات دل ودماغ میں آتی ہے کہ اجتماعی طور پر ایک ایسا دن منانے کا اعلان و انتظام کیا جایے جس میں سبھی کی توجہ اس ضروری امر پر مبذول ہو،ظاہر ہے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں!اس طرح سہولت کے پیش نظر جس روز ہم سب مل کر صرف اس ایک اہم ”کام“ کی اہمیت کی طرف سبھی کی توجہ اس طرف موڑتے ہیں تو غالباً وہی 'ڈے' بن جاتا ہے اور اس طرح مختلف ڈیز کی شکلیں بنتی چلی جاتی ہیں.اسکا مطلب یہ ہزگز نہیں کہ فقط ایک دن شور شرابا کر لیا جایے، انٹر ٹینمنٹ کے طور پر وقت گزاری ہو جایے اور بس! اگر مقصد یہ ہے تو سرے سے ہماری بحث سے خارج اور شرعا ممنوع ہے. 


اب یہاں قومی و بین اقوامی ڈیز کی قسمیں اور انکی شرعی حیثیت کیا ہے،وہ پتا لگانے کی کوشش کرسکتے ہیں! 


ڈیز Days کی راقم کے نزدیک بنیادی طور پر دو قسمیں بنتی ہیں اول ممنوع. دوم مباح. 

پھر انکی یعنی ممنوع و مباح کی دو دو قسمیں ہوتی ہیں.اول:بین اقوامی یعنی انٹرنیشنل ڈیز International Days جیسے یوم عشاق یوم اساتذہ وغیرہ.دوم:قومی یعنی National Days:جیسے انڈپنڈینس ڈے،حجاب ڈے وغیرہ.قومی ڈیز کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں:اول اجتماعی سطح پر جسے منایا جایے،جیسے یوم جمہوریہ انڈپنڈینس ڈے. دوم:انفرادی سطح پر مدعوین کے ساتھ منایا جایے جیسے برتھ ڈے وغیرہ.


الحاصل کل چھ قسمیں ان ڈیز کی بنتی ہیں.اول ممنوع انٹرنیشنل ڈے،دوم مباح انٹرنیشنل ڈے، سوم:ممنوع قومی ڈے،چہارم:مباح قومی ڈے، پنجم:ممنوع قومی انفرادی ڈے، ششم:مباح قومی انفرادی ڈے. 


اسلامی نقطہ نظر سے ہر وہ ڈیز خواہ قومی ہو یا بین اقوامی،اجتماعی ہو یا انفرادی،جنمیں بے فایدہ أضاعت مال،بے فایدہ أضاعت وقت،غیر کی دیکھا دیکھی مرعوبیت کے نتیجے میں فقط خالی خولی نقالی،نیز خلاف شرع امور مثلا نامحرم مرد وعورت کا اختلاط،شراب نوشی،رقص وسردو اور وقت موعود سے نماز کا ٹالنا و ترک کرنا وغیرہ ہوگا وہ ڈیز ممنوع قرار پایگا.ہاں جب ان امور سے خالی اور مفید مثلا اس موقع سے متعلقہ شخصیات و تحریکات کو یاد کرکے،ان سے اور انکی تاریخ و تحریک سے نیی نسل کو آگاہ کرنا،انکو مہمیز کرنا،احتساب اور جایزہ لینا وغیرہ جیسے،نتیجے پر منتج اگر پروگرام ہو،تو اسے مباح کے درجے میں رکھا جاسکتا ہے. 


متذکرہ بالا معیار کی روشنی میں آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ 'ممنوع انٹرنیشنل ڈے' جیسے یوم عشاق Valentine'sday اور 'مباح انٹرنیشنل ڈے' جیسے عالمی یوم صحت،اسی طرح 'قومی مباح ڈے' جیسے یوم جمہوریہ اور ' قومی ممنوع ڈے' جیسے غیروں کی قومی تہوار اور 'قومی مباح انفرادی ڈے' جیسے اداروں کی یوم تاسیس اور 'قومی ممنوع انفرادی ڈے' جیسے شادی کی سالگرہ اور برتھ ڈے وغیرہ ہیں.بھلے ان میں چند امور کو لیکر علماء کے اختلافات بھی موجود ہیں. 


اب ظاہر ہے کہ یوم اساتذہ کے موقع سے طلبہ اور انکے والدین کے دلوں میں علم وفن کی عظمت بٹھای جایے، اساتذہ کی شفقت اور انکی ذمہ داری انہیں یاد دلای جایے،قوم و معاشرے میں ان سب کی اہمیت اجاگر کی جایے،طلبہ میں مشہور نامور اساتذہ جیسا بننے پر انہیں مہمیز کیا جائے،اخلاق و اصول کی پابندی انکے دل ودماغ میں ترو تازہ کیا جائے تو یہ سب مطلوب ہی قرار پاتے ہیں، بلکہ اس موقع سے کس کے کس پر کیا کچھ فرایض عاید ہوتے ہیں اس حوالے سے انکا انہیں حلف دلایا جایے اور آیندہ پروگرام میں اسکی تجدید و تحقیق ہوتی رہے،تو سونے پر سہاگہ! 


مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 'یوم اساتذہ' شرعا مباح کے درجے میں آتا ہے.

یعنی جس طرح انڈپنڈینس ڈے مناتے ہیں اور قومی بہادروں و مجاہدوں کی بہادری اس موقع سے اجاگر کرتے ہیں،اسی طرح ان ڈیز کو بھی انگیز کیا جاسکتا ہے بایں طور کہ ان موقع سے متعلقہ موضوع پر منفی و مثبت پہلو سے گفتگو کرنے،سیکھنے سکھانے والے ایک مباح پروگرام کا انعقاد فقط ایک کیف ما اتفق پروگرام سمجھ کر کر لیا جایے.تو اسکی گنجائش نکل سکتی ہے گفٹ و مٹھائی وغیرہ بھی اسی پر قیاس کرکے سمجھ لیں! 

ہاں جب اسکا التزام و اہتمام اس طرح ہونے لگے کہ نہ کرنے والے کو گستاخ سمجھاجایے تو ایسے موقع سے اسے ترک کرنا اولی و أنسب ہوگا.فقہاء کرام نے اسی لیے لکھا ہے کہ کسی مستحب عمل کو بھی عوام اگر ضروری سمجھنے لگیں تو اس کا ترک لازم ہوجاتا ہے،جبکہ مذکورہ ڈے مستحب بھی نہیں بلکہ اسے درجہ مباح میں رکھا گیاہے.

لہٰذا مکرر عرض ہے کہ جب اسے لیکر عوام و خواص میں اس درجہ غلو ہونے لگے کہ یہ ڈیز رسم کی شکل بن جائے اور اسے ضروری سمجھا جانے لگے،تو اس کا ترک کردینا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا ۔

ان تفصیلات سے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے. وہ بھی آپ سمجھ گئے ہوں گے! 

دعاؤں میں یاد رکھیں! 

========================

(١) ما في ’’صحیح البخاري ‘‘:’’إذا أمرتکم بشيء فافعلوہ ما استطعتم ،وإذا نہیتکم عن شيء فانتہوا ‘‘۔ (۲/۱۰۸۲، کتاب الإیمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، سنن ابن ماجہ: ص/۲، المقدمۃ،باب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ)

ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : ’’ لأن اعتناء الشرع بالمنہیات أشد من اعتنائہ بالمأمورات ‘‘ ۔ (ص/۷۸) (قواعد الفقہ:ص/۸۱ ، قاعدۃ :۱۳۳)

(۳) ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : ’’ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ - ’’ ما أُبیح للضرورۃ یتقدر بقدرھا ‘‘ ۔ (۱/۳۰۷ ، ۳۰۸)

(٣)الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔(سعایۃ ۲؍۲۶۵، الدر المختار،باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر ۲؍۱۲۰ کراچی، ۲؍۵۹۸ زکریا)

قال الطیبي: وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا،ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال،فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح ۲؍۱۴، فتح الباري ۲؍۳۳۸)

========================

Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari

ھذا عندی والصواب عنداللہ 

توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا

05/09/2019 

muftitmufti@gmail.com

T51337.wordpress.com

T.me/fatawatouqueeri

+919122381549

+918789554895

تبصرے