کیا اسلام ایک تنگ نظر دین ہے؟ توقیر بدر القاسمی
کیا اسلام تنگ نظر دین ہے؟
السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب آپ کیسے ہیں؟ میں دعا گو ہوں رب کریم آپ کو سلامت رکھے آمین!
مفتی صاحب میں ایک انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ ہوں،مولانا مودودی صاحب کی تفسیر تفہیم القرآن،مفتی شفیع صاحب کی معارف القرآن اور رسائل و مسائل و دیگر اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں.
دینی امور میں انہی دلچسپیوں کے پیش نظر آپ سے ابھی کہنا یہ ہے کہ جب کسی قومی و بین اقوامی کھیل{National International Game & Sport} اور اس میں کرتب بازی و مظاہرے کی بات چل پڑتی ہے.تو لبرلز و ملاحدہ ایک سوال ضرور اٹھاتے ہیں وہ یہ کہ مسلم خواتین کی کھیل میں حصہ داری کس حد تک؟اور پھر اسلامی پردے کو ان کھیل و نمائش کی آڑ میں مضحکہ خیز بناکر پیش کیا جاتا ہے.وہ یہاں اسلام کو تنگ نظر کہنا نہیں بھولتے!ہمارے کئی دوست ایسے ہیں جو انکی باتوں میں آکر یہ کہنے لگتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں جہاں جہاں استثناءات {Exceptions} آیی ہیں ان میں پیش کردہ مقاصد کے پیش نظر علماء کرام کو اس بابت غور و خوض اور اجتہاد{concentration & concitation} کرکے اس کا حل نکالنا چاہیے.ورنہ دنیا اسلام کو تنگ نظر کہتی رہیگی اور یوں اسکی دعوت و رسائی کا کام متاثر ہوگا رہے گا!
تو ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ کھیل کود کے متعلق اسلام میں کیا گائیڈ لائن ہے؟ لبرل جو مسلم خواتین کے فٹنس و مظاہرے {Fitness & performance} میں پھرتی کو لیکر اسلامی لباس کو نشانہ بناتے ہیں.اس کا معقول {Reasonable} جواب کیا ہوسکتا ہے؟ آیا میرے ساتھیوں کا مذکورہ بالا باتوں کا بیان کرنا،کہنا یا ایسا سوچنا کیا یہ درست ہے؟
امید ہے کہ آپ ان باتوں کے معقول جوابات آپ ضرور فراہم کریں گے! جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزا
آپ کا ایک دینی بھائی ایم سالم آندھرا پردیش انڈیا.
======================
وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ سب خیر و عافیت سے ہیں. رب کریم کا بے حد احسان و کرم ہے.
آپ نے جن باتوں کو لیکر راقم کو یاد کیا ہے.وہ اب عام ہوتی جارہی ہیں.اب تو خاص انداز میں میڈیا و عوامی گفتگو میں بار بار موضوع گفتگو بنتا دیکھ نسل نو انہی کھیل تماشے میں اپنا ہدف زندگی {career} بھی تلاش کرنے لگی ہے.ایسے میں ایک صاحب ایمان کو اپنا ایمان مقدم رکھنا اور ایمانی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے انکی راہ نمائی کرنا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے.
سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھیں اسلام نے ہر کام میں خواہ خالص دینی ہو یا دنیوی،وہ انسان کی فطرت اور اسکی صلاحیت کے پیش نظر مبنی بر حکمت حکم دیتا ہے اور اس میں اعتدال اپنانے کہتا ہے.چناچہ وہ اپنے متبعین و پیروکار کو خالی از حکمت و بے کار کاموں سے روکتا بھی ہے اور افراط و تفریط سے ہر گام منع بھی کرتا ہے.قرآنی آیت "و جعلنا کم امۃ وسطا" اور "افحسبتم انما خلقناکم عبثا" کو آپ وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کیجیے!
اسکے بعد یہ جان لیجیے کہ پھر بھی کویی فقط دنیا کی چمک دمک سے متاثر ہوکر اسی دنیا کا بندہ بن کر رہنا چاہے،تو رہے،اسلام یا اسلامی ہدایات سے اس کا کویی سروکار نہیں!
بیان کردہ اسلامی حقیقت کے بعد یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ اکثر لبرلز و ملاحدہ اسلام سے ازلی بیر کے پیش نظر خواتین اسلام کو جب بھی نشانہ طعن بناتے ہیں تو اس میں "پردہ" کا ذکر ضرور کرتے ہیں پھر اسے وہ چلتا پھرتا جیل بھی کہدیتے ہیں اور خواتین کو شوہر کے ماتحت غلام بولتے ہیں،رضاکارانہ طور پر گھریلو کام کاج کو لیکر انہیں وہ نوکرانی تک کہدیتے ہیں.قرانی آیت میں شوہر کو ذمہ دار ہونے کے ناطے افہام و تفہیم کے لیے ترتیب وار ہدایت میں ہلکی پھلکی ضرب کی بات کو لیکر خوب خوب شور مچاتے ہیں.اور یوں وہ اس بابت اپنے زعم میں اسلام کو" خواتین مخالف مذہب " گردان کر بڑا تیر مار لیتے ہیں.
جب کہ یہ لبرز و ملاحدہ ہم آپ سے زیادہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ آج ایک نادیدہ وائرس نے بدن پر کپڑے اور اس پر پلاسٹک کے ماسک و کور کو کس قدر لازمی بنادیا، اسے بتانے کی ضرورت نہیں، تو اس نادیدہ کو لیکر ایک انسانی پروٹوکول کی لازمیت انہیں تسلیم، مگر ربانی حکم "پردہ" انکو تسلیم نہیں!
اسی طرح کھیل و اسپورٹ کی دنیا میں بھی ایک ذمہ دار ہوتا ہے، جسے دنیا معلم یا Coach کے نام سے جانتی ہے،اور اسکا ذمہ دار ایک بورڈ ہوتا ہے اور وہ بورڈ ایک وزارت {Ministry} کے ماتحت ہوتا ہے.اور یہ سب کے سب اول نمبر کے دنیا دار ہوتے ہیں.یہ خواتین کھلاڑیوں کو کتنا کھیلنے دیتے ہیں اور خود ان خواتین سے کتنا کھیلتے ہیں یہ سب آیے دن میڈیا میں آتا رہتا ہے.
یہ اپنے اپنے ماتحت کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں،اسکی جھلک کبھی کبھی انکے انتہا پسندانہ عمل یعنی خودکشی {suicide} جیسے بھیانک اقدامات سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ہمیں دیکھنے کو مل جاتی ہے. یہ لبرلز و ملاحدہ اس پر شور مچاتے کبھی نہیں دکھیں گے.یہاں انکے حقوق انسانی کے حس کو لقوہ مار جاتا ہے.
فقط اتنا ہی نہیں،بلکہ تماش بین دنیا کو عارضی ذہنی تفریح فراہم کرنے کے لیے ایک کھلاڑی کو مستقل کس قدر دوران تربیت پریشانیوں و مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے،کہ بسا اوقات وہ اپنی جان تک ہار جاتے ہیں.سر پر بال لگنے سے کھلاڑی کی موت کی خبر چند سالوں قبل آپ نے بھی پڑھی ہوگی.اسی کے ساتھ یہ کھلاڑی بالخصوص خواتین ان پرُ مشقت ٹریننگ سے اپنی نسوانیت کے ساتھ ساتھ بعض اعضا کی درستگی تک کھو دیتی ہیں،کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر اس میدان میں ٹکی نہیں رہ سکتی،انہیں منٹوں میں expel و خارج کردیا جایگا،مگراس پر یہ لبرلز و ملاحدہ گھڑیالی ٹسو تک بہانے کی زحمت نہیں کرتے!
جب کہ انہیں چاہیے کہ وہ ایوارڈ لاکر قوم کو خوشی دینے والے فرد کے لیے ہر طرح سے ایک انسان کے ناطے پوری سہولت فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے! انہیں قابل فخر جانتے ہیں تو انہیں وہ سہولت و شہرت دیتے جس کے وہ حقدار ہیں ،نہ کے نیتا گن اسے بٹورتے رہتے!
بقیہ زندگی ان کھلاڑیوں کی پوری عیش و عشرت میں گزرتی نہ کہ اتنے جوکھم اٹھاکر قوم کو ایوارڈ عطا کرنے والے یا والی،کہیں گمنام کسی کے گھر چھوٹی موٹی نوکری کرکے یا برتن پوچھا مارکر زندگی بسر کرتی!جنکی خبریں سوشل میڈیا پر آیے دن گشت میں رہتی ہیں.
یہ ملاحدہ و لبرلز انسانیت کے ناطے اس میدان میں کام کرسکتے ہیں، سو کرتے نہیں،مگر انکے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے،تو اس بات کو لیکر کہ کھیل میں مسلم خواتین کی حصہ داری کس حد تک؟ افسوس انکے بے کار خالی دماغی نسوں پر!
ہاں انہیں دکھتا ہے تو فقط یہ کہ خواتینِ اسلام شادی سے قبل یا شادی کے بعد اپنے محارم و شوہر کی ضمانت و حفاظت میں کیوں ہیں؟یعنی انہیں کھیل تماشے کے لیے کوچ و بورڈ کی سربراہی منظور،مگر نسل انسانی کی پرورش و پرداخت اور اس کلیدی منصب سے عہدہ برآں ہونے کے لیے گھر میں مسلم شوہر کی ذمہ داری اور مسلم بیوی کی اطاعت و محبت والانظم و ضبط گوارا نہیں!
انہیں چوٹ کھا کھا کے کھلاڑی کی ساخت و حلیے کا بدلنا،یا پھر سیدھے کھیل سے خروج و exit لینا بھر پور تسلیم،مگر افہام و تفہیم کے لیے تین ناگزیر اقدامات کے بعد مسلم بیوی کے حق میں بے نشان ہلکی پھلکی تادیب قطعا منظور نہیں!
پڑھی لکھی خواتین کو دنیا آج کیا مقام دے رہی ہے، اس پر انہیں کویی سدھ بدھ نہیں، ہاں مگر کھیل کود میں مسلم خواتین کی حصہ داری کتنی؟ اس پر سوال اس طرح کرتے ہیں،جیسے یہ ان خواتین کی فطری، قانونی و شرعی کویی لازمی ذمہ داری ہو،جس سے وہ گریزاں ہیں؟ افسوس انکی دماغی یتیمی پنے پر!خواتین میں کھیل کو لیکر کتنی دلچسپی رہتی ہے فطری طور پر پر وہ کتنا میلان رکھتی ہیں اس بابت کاش یہ WHO کی رپورٹ ہی پڑھ لیتے!
ان تفصیلات کے بعد آپ کے جو سوالات ہیں انکے جوابات بالکل آسان ہیں.
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے اسلام میں ہر ایک حکم ایک مقصد و حکمت کے تحت ہے اور اسے افراط و تفریط سے پاک رکھا گیا ہے، تو کھیل کود کے متعلق یہ گائیڈ لاین یاد رکھیں کہ اس کھیل کو بھی افراط و تفریط سے پاک ایک نیک مقصد سے وابستہ رکھا گیا ہے.اور وہ ہے فرد کی جسمانی ورزش اور چستی و پھرتی کی بحالی! سستی و بیماری کا ازالہ! بوجھل طبیعتوں کو کھیل و تفریح سے بہلانا اور پھر اچھے کاموں کے لیے از سر نو چاق و چوبند کرنا! بشرطیکہ ہر قسم کی فحاشی و عیاشی اور بے پردگی نیز ضرر سے خالی ہو!خواتین و لڑکیاں اپنی سہیلیوں و ہمجولیوں کے ساتھ کھیل سکتی ہیں وہ اختلاط سے ہر ممکن گریز کریں گی!بصورت دیگر دنیا شاہد ہے خود انکا کھیل تماشا بن جایگا!
بجائے اس کے اگر کویی اسکے نام پر یہ کرنے لگے کہ خود اسے جوکھم اٹھانا پڑے،اکیلا اس کا موہوم فائدہ تو اس سے وابستہ ہو،تاہم لاکھوں افراد کے لیے ایک عارضی ذہنی تفریح کے عوض وقت و پیسے کی بربادی کا سامان ثابت ہو،تو پھر ایسی صورت میں اسکی اجازت تو آج ایک ماں باپ اپنے بچوں کو، ایک استاذ اپنے طلبہ کو، ایک باس اپنے ملازم اور حکومت اپنے آفیسران کو نہیں دیتی، تو پھر اسلام سے اسکے پیروکاروں کے حق میں اس کی توقع کیونکر رکھی جاسکتی ہے؟ کیا اسلام سے قبل ان سبھی ماں باپ، اساتذہ سرکار و باس کو ملاحدہ تنگ نظر کہنے کی ہمت کریں گے؟
جہاں تک فٹنس اور کھیل میں اچھے مظاہرے کی بات ہے تو عرض ہے کہ خواتین کی فطری خواہش کے مطابق دیدہ زیب مکمل و خوبصورت لباس کی جگہ،تنگ و چست لباس نہیں؛بلکہ لباس کے نام پر فقط {Two piece} دو ٹکرے ہوتے ہیں،اسکی خلاف ورزی پر انہیں جرمانے تک سے گزرنا پڑتا ہے.اور اسی کا فلسفہ پیش کیا جاتا ہے.
یہاں ایسے فلسفہ پیش کرنے والے سے ہر ایک صاحب عقل و خرد کا یہ سوال ہے،کہ آخر یہ فٹنس فنی مہارت و لیاقت اور جسمانی طاقت و سرعت سے پیوستہ ہوتا ہے یا پھر لباس سے؟ اگر لباس سے ہی یہ مربوط ہے،تو پھر اس {Two piece} کی بھی زحمت کیوں؟اور اگر یہ مظاہرے و فٹنس جسمانی طاقت و فنی مہارت سے وابستہ ہوتا ہے،تو پھر یہاں لباس کی کمیابی کا فلسفہ کیوں؟
خبروں کے مطابق ابھی کے اولمپک میں تو کسی مسلم خواتین نے پورے لباس میں ملبوس دوڑ لگا کر {Two piece} والی کو شکست سے دوچار بھی کیا ہے.اور یہ فلسفہ سدھ کردیا کہ اس فٹنس و مظاہرے کا تعلق جسمانی پھرتی و طاقت اور فنی مہارت و لیاقت سے ہے.اسے لباس سے مربوط کرنا کم عقلی و بوالہوسی ہے.
رہ گئی بات آپ کے دوستوں کی سوچ و فکر کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک دائمی دین ہے.اس کے احکامات میں باری تعالیٰ نے بڑی لچک رکھی ہے. یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ احکامات کے حوالے سے ایک لچکدار {Flexible} دین ہے.اس لیے اس میں استثناءات بھی ہیں اور ہونے چاہئیں!
تاہم یہ دین اپنی تبلیغ ورسائی میں ایک حتمی فاصلہ {Dead line} بھی رکھتا ہے.جسے آپ "لکم دینکم و لی دین" سے سمجھ سکتے ہیں.
اسی طرح اجتہاد کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان"لا طاعۃ لمخلوق بمعصیۃ الخالق" بھی ہمیشہ ہماری نگاہوں میں رہنا چاہیے.
پتا نہیں آپ کے دوستوں کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ مسلم خواتین کے لیے کھیل تماشے اور لباس میں تراش خراش کی اجازت نہ دینے سے دین کی تبلیغ رک جائیگی؟جبکہ حقیقت اسکے الٹ ہے.
آپ جانتے ہونگے کہ مغربی ممالک میں کھیل اور فلم و سنگیت کی دنیا سے وابستہ کئی ایک نامور کھلاڑی و فلمی اداکار ایسے بھی منظر عام پر آیے،جنہوں نے اسلام کے دامن میں آکر پناہ لیا.جب کہ اسلامی ہدایات اور مغربی ممالک میں کھیل و فلمی دنیا کے اطوار کس قدر متضاد ہیں.یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں!
امید کہ ان نکات آپ غور کریں گے تو ان اعتراضات کا بودا پن آپ کے سامنے عیاں ہوجایگا. آپ کے دوستوں کو بھی اسکی حقیقت معلوم ہوجایگی!
دعاؤں میں یاد رکھیں!
Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا
12/08 /2021
muftitmufti@gmail.com
+918789554895
+919122381549
اسے عام کیجیے
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہترین جانکاری سے پر جواب دئے ہیں،
جواب دیںحذف کریںآپ نے درست فرمایا کہ Two piece میں
مکمل کپڑے کے ساتھ کامیابی حاصل کی ،
اسی طرح ایک مسلم عورت کرکٹ ٹیم میں آئی ہے ، مکمل لباس کے ساتھ اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے ،
جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب
امید ہے کہ سائل سمیت معترضین حضرات جواب سے مطمئن ہوں گے !
از ع الرحمٰن