قرآنی آیات میں دعویٰ تضاد اور علمی جائزہ:توقیر بدر القاسمی آزاد

 



مفتی صاحب السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ!

ایک بندے کا یہ کہنا ہے کہ قرآن کا اگر عقیدت سے ہٹ کر معروضی مطالعہ کیا جایے تو اس میں تضاد paradox نظر آیگا _نعوذ باللہ _مثلاً وہ کہتا ہے کہ ایک جگہ قرآن نے شرک کی نفی کی، مشرک کو بارہا جہنم کی وعید سنائی، جبکہ اسی کے ساتھ ساتھ دوسری جگہ دیکھا جایے.تو خود اللہ کے جو صفاتی نام ہیں.مثلا رؤوف، رحیم، حفیظ و علیم وغیرہ اس میں قرآن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی شامل کیا ہے.تو کیا یہ شرک نہیں ہے؟ اصولا کیا یہ تضاد بیانی نہیں ہے؟ انہوں نے تقابل کے لیے سورہ بقرہ آیت 143 اور سورہ توبہ آیت 128 کو پیش کیا ہے.

اسی طرح اگر کویی یہ کہے کہ شرک فی الذات ممنوع ہے،شرک فی الصفات نہیں!تو دریافت یہ کرنا ہے کہ ایسا کہنا اور عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟آپ سے گزارش ہے کہ آسان سادہ جملوں میں شرک کی وضاحت بھی فرمادیں!

آپ کا دینی بھائی یوسف پٹیل مہاراشٹر

======================

وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ!
قرآن مقدس کا جس جہت سے بھی مطالعہ کیا جایے،اس میں کسی قسم کا تضاد {paradox} نہیں دکھایا جاسکتا،بشرطیکہ علم و انصاف دامن گیر رہے!کیونکہ تضاد {paradox} کے وقوع کے بھی اپنے اصول ہیں.

قرآن کا روز اول سے نہ صرف یہ اعجاز ہے،بلکہ منکرین و مخالفین کے سامنے نزول کے وقت سے لیکر آج تک یہ وہ ناقابل جواب ادّعا و چیلنج رہا ہے،جس سے ہر سخن ور اچھی طرح سے آگاہ ہے.

قرآن نے بے شک بنا کسی ابہام کے دو ٹوک انداز میں شرک {polytheism} کی نفی و مذمت کی ہے، اسے ظلم عظیم سے تعبیر کیا ہے خواہ وہ شرک فی العبادۃ ہو، شرک فی الذات ہو یا شرک فی الصفات!اور اس قسم کے عقیدے کو اپنانے والے کو مشرک کہا ہے اور اسے جہنم کی بشارت دی ہے.

ہاں البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صف رأفت و رحمت کے ساتھ رؤوف و رحیم اور حضرت یوسف کی زبانی انکے لیے حفیظ و علیم کا اعلان و اظہار بھی قرآن مقدس نے کیا ہے.یہ اپنے اپنے موقع و محل کے اعتبار سے بالکل درست ہے.اس میں کہیں بھی "شرک فی الصفات" کی بات مطلق نہیں آئی ہے،بلکہ یہ فقط رب کریم کی طرف سے انکے لیے عطا کردہ {granted} ان محدود اوصاف کا اعلان ہے.کسی ذاتی{Essential & personal} لامحدود صفات کا اظہار قطعا نہیں!ظاہر ہے جب کما و کیفا {in quality and quantity} یہ دونوں سطح پر الگ الگ ہیں.تو انہیں یکساں قرار دیکر تضاد {paradox} کی باتیں کیونکر کی جا سکتی ہیں؟

فقط بغرض تفہیم سوالا عرض ہے کیا لفظ " چوکیدار" یہ وزیر اعظم اور ایک ادنیٰ چپراسی دونوں کے لیے نہیں بولا جاتا، تو کیا یہ دونوں ہرلحاظ سے یکساں ہونگے؟اور اگر یکساں نہیں ہونگے تو آیین و دستور میں اسے تضاد بیانی کا نمونہ قرار دیں گے؟ یا پھر دونوں کا مصداق و محمل طے کریں گے؟ 

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معترض نے فقط لفظ شرک {polytheism} کو دیکھا اور اعتراض جڑ دیا.اس نے یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ شرک کسے کہتے ہیں اور ایک وصف کے صوتی و صوری اطلاق کے وقت کما و کیفا {in quality & quantity} اسکی کیا حقیقت ہوتی ہے؟

اس پس منظر میں "شرک" {polytheism} سادہ جملہ میں اسے کہتے ہیں کہ الوہی صفات میں سے ایک بھی صفت بکمال و تمام کسی بندے کے لیے اسی کیفیت و مقدار میں مان لی جایے،جس کیفیت و مقدار کے ساتھ وہ باری تعالیٰ کے لیے مسلم و مسخر ہے. یہ سراسر گمراہی اور ظلم عظیم ہے.

چنانچہ معمولی عقل کا آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رؤوف و رحیم کہا گیا ہے اس میں،اور رب کریم قادر مطلق جو رؤوف و رحیم ہیں، اس میں میں رأفت و رحمت کا وہی فرق ہے،جو ذات خالق و مخلوق کے مابین ہے. حضرت یوسف علیہ السلام نے بزبان خود اگر حفیظ و علیم کہا ہے،تو ان کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ انکے علم و حفظ کی وسعت و مقدار{in quantity & quantity} بھی اتنی ہی ہے جتنی رب قدیر کی ہے!

آپ جانتے ہیں علم،حلم، نرمی، سخاوت کرم، غصہ، بنانا بگاڑنا یہ سارے وہ اوصاف ہیں؛جن کا لفظی و صوتی اعتبار سے اطلاق انسان اور خالق کاینات دونوں پر ہوتا ہے،مگر ان میں نتایج و اعتبار کا وہی فرق ہوتا ہے،جو بجائے خود قادر مطلق خالق کاینات اور اسکی سراپا محتاج مخلوق میں ظاہر و مسلم ہے.

آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ اللہ تعالیٰ عالم ہیں،مگر آپ بندوں کو بھی عالم کہدیتے ہیں، رب کریم حافظ و حفیظ ہیں، جبکہ آپ ایک بندے کو بھی حافظ کے لقب سے پکارتے ہیں.اللہ تبارک و تعالیٰ خبیر ہیں،مگر ایک انسان کو بھی آپ باخبر کہتے ہیں.تو اس کا مطلب شرک کرنا نہیں ہوتا ہے.

ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ سب رب کریم کے اوصافِ کمال_جسے علماء 'ذاتی' {essential & personal} سے تعبیر کرتے ہیں _کا ہلکا سا پرتو ہے، جو اس نے تکوینی مصالح کے تحت بندوں پر ڈالا ہے.تو کہہ سکتے ہیں کہ بس اسی ہلکے پرتو کا اثبات قرآن مقدس میں ہے،اس کو علما 'عطائی'{Granted} سے تعبیر کرتے ہیں!ہاں اس ہلکے پرتو کو اس اوصافِ کمال کے برابر سرابر جاننا یہ شرک ہے،جس کی نفی قرآن میں کی گئی ہے.
ظاہر ہے اس علمی فرق و اعتبار سے قرآن مقدس میں کوئی تضاد نہیں ہے.

الغرض "شرک فی الذات" ہو یا "شرک فی الصفات" اسلامی عقیدے کے مطابق ایسا عقیدہ رکھنا یہ بہر صورت شرک ہی ہے.جس سے بچنا بقایے ایمان خالص کے لیے لازم و ناگزیر ہے.ایسا عقیدہ رکھنے والا قرآن کی رو سے مشرک و جہنمی ہے.

مذکورہ بالا اثبات و نفی کی روشنی میں بنظر انصاف دیکھا جائے،تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا،کہ معترض نے جو کچھ پیش کیا ہے،وہ سراسر یا تو شرک کی حقیقت اور تضاد کی اصلیت سے ناواقفیت کا شاہ کار ہے یا پھر قرانی فہم سے بددیانتی و بغض کا اظہار ہے.اللھم احفظنا منہ!

رب کریم آپ کو اور ہمیں درست راہ پر قائم رکھے آمین

Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari 

آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا
04/08/2021
muftitmufti@gmail.com
+918789554895
+91 9006607678

تبصرے

  1. ماشاءاللہ بہت زبردست اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمین ثم آمین جزاک اللہ خیرا واحسن الجزا اخی الکریم

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں