قربانی فقط حاجیوں کے لیے؟ توقیر بدر القاسمی آزاد

 


مفتی صاحب السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ!

میں ایک کالج کی طالبہ ہوں.کچھ سالوں قبل میری ایک استانی میڈم نے کہا تھا کہ قربانی جو حضرت ابراہیم کی سنت ہے،اسکی ادائیگی کے لیے سبھی مال و اوقات خوب خوب خرچ کرتے ہیں. بھاگ دوڑ کرتے ہیں جانور کی قربانی سے قبل خوب خوب دیکھ بھال کرتے ہیں،حالانکہ یہ ماہرین قرآن کے مطابق فقط حاجیوں کے لیے ہے. اور لا تعداد سنت محمدیہ ایسی ہیں جن سے ہم غافل رہتے ہیں،انکی کویی فکر نہیں! تو جہاں اتنی ساری سنتوں کو ترک کیے رہتے ہیں وہیں ایک سنت براہیمی کے لیے اتنی زحمت کیوں؟جبکہ یہ حاجیوں کے لیے ہی خاص ہے!
مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا قربانی فقط حاجیوں کے لیے ہی ہے؟ کیا یہ سنت محمدیہ نہیں ہے؟کیا کویی یہ سوچ کر اسے ترک کردے کہ اور سنتیں تو ادا نہیں ہوتیں تو اسے چھوڑ دیں تو کیا حرج ہے؟تو وہ گنہگار ہوگا؟
امید ہے کہ آپ وقت نکال کر ان باتوں کا جواب فراہم کریں گے.
دعاؤں کی درخواست ہے.
ایک دینی بہن.........پاک
====================

وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ!
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اصل سوالات کے جوابات پہلے نقل کردوں وہ یہ ہیں:
(1)=قربانی ایک واجبی مسنون اور رب کریم کے حضور بندہ کی طرف سے ایام اضحیہ میں پیش کردہ سبھی کاموں سے زیادہ محبوب و پسندیدہ کام اور عمل ہے.یہ سنت محمدیہ ہے،جو سنت براہیمی کا تسلسل ہے.
(2)=فقہائے عظام کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ قرآنی آیات میں اختیار کردہ اسلوب کے مطابق امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے قربانی کو واجب قرار دیا ہے.جبکہ دیگر ایمہ حضرات حدیث نبوی میں موجود اسلوب کے پس منظر میں اسے سنت موکدہ کہتے ہیں. راقم نے" واجبی مسنون"کی تعبیر اس لیے اختیار کی ہے.

یہ فقط حاجیوں کے لیے نہیں ہے.قرآنی آیات سورہ حج آیت 34{"وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ"} سورہ کوثر آیت 3{فصل لربک و انحر "} سورہ انعام آیت 162{"قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ"}
سے آپ رجوع ہوں!تو معلوم ہوگا کہ ایام اضحیہ میں اضحیہ و قربانی حاجی و غیر حاجی سبھی کے لیے ہے،ہاں شرط یہ ہے کہ وہ صاحب استطاعت ہو!احادیث میں تفصیلات مل جائیں گی!

(3)=اسے عام سنت سمجھ کر چھوڑنے والا بلاشبہ گنہگار اور خیر کثیر سے محروم ہوگا.
گنہگار و محروم اس لیے کہ قرآنی اسلوب کی روشنی میں امام اعظم رحمہ اللہ اسے صاحب استطاعت پر واجب قرار دیتے ہیں اورتارک واجب گنہگار ہوتا ہے،جبکہ دیگر ایمہ کرام نے اسے سنت موکدہ کہا ہے. ظاہر ہے ایسی سنت سے محرومی خیر کثیر سے محرومی نہیں تو اور کیا ہوگی؟

اب جہاں تک رہ گئی آپ کے میڈم کی بات،تو عرض ہے کہ وہ شاید غلام احمد پرویز صاحب مرحوم کو کچھ زیادہ ہی پڑھتی ہیں اور صرف انکو ہی پڑھی ہیں.یہی نہیں؛بلکہ فقط ان تک ہی قرآنی علوم و معانی اور احکام و ہدایات کو محدودسمجھتی ہیں.

یہ اس لیے کہنا پڑ رہا ہے؛کیونکہ "حاجی تک ہی قربانی محدود ہے" یہ شوشہ اردو حلقے میں قرآن کے حوالے سے انہی کا چھوڑا ہوا ہے.
حالانکہ علمی و فکری دنیا میں اس رویے کو بہتر نہیں سمجھا جاتا ہے،بلکہ اس صفت کے حامل کو محدود عقلیت {Bounded rationality}والے کے نام سے چڑِھایا جاتا ہے؛ کیونکہ ایسی سوچ و مزاج والا ایک چیز پر جمود و قناعت کرکے بیٹھ جاتا ہے.وہ یک-طرفہ دیکھتا اور سوچتا ہے. جس سے انفرادی و اجتماعی اور معاشرتی و سماجی نقصانات کس قدر ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں!
ویسے جناب پرویز صاحب بھی پہلے غیر حاجی کے لیے بھی قربانی کے قائل تھے.بعد میں پتا نہیں کس کے بہکاوے میں آگیے یا خاص میلان طبع کی بنا پر کون سی من مانی لغوی تحقیق ہاتھ آئی کہ وہ چودہ سو سالہ اس امر واقعی کا انکار کر بیٹھے.اور شد ومد سے اس کا انہوں نے انکار کیا.
خیر آپ میڈم کو مشورہ دیں کہ وہ تقابلی لحاظ سے پرویز صاحب کی پہلی تفسیر "سلسلہ معارف القرآن"جو بعد میں الگ الگ نام و عنوان سے شائع ہوا.اور پھر دوسری تفسیر "مطالب الفرقان " جو فقط سورہ الحجر تک ایک نامکمل تفسیر ہے،انہیں دیکھ لیں تو یہ سارا منظر صاف ہوجائے گا.
اسی کے ساتھ ساتھ راقم کا مشورہ یہ بھی ہے کہ ان میڈم کو چاہیے کہ وہ اور بھی ماہرین قرآن و مفسرین قرآن کو پڑھیں اور پھر سارے دلائل کو سامنے رکھ کر کسی ایک بہتر نتیجے پر پہونچیں!یہ ان کے لیے اچھا ہوگا.

جہاں تک اس خیالِ وبال و فلسفہ زوال کا سوال ہے کہ جب اور دیگر سنتوں کا اہتمام ہو نہیں پاتا،تو قربانی جیسی سنت کا اہتمام کیوں کریں؟تو اس بابت ہم یہی کہہ سکتے ہیں!بریں عقل و دانش بباید گریست!
گویا ایسی سوچ رکھنے والا اگر کبھی صحت مندانہ چیزوں کا خیال نہ رکھ سکے.مقوی غذا صاف ستھری ہوا اور پانی سے محروم رہے.جسمانی حرکات سے دور رہے،نتیجتا کمزور و بیمار پڑجایے.جبھی اس کے علاقے میں ڈاکٹروں کا کیمپ لگے.وہ دوستوں کے مشورے پر وہاں جایے اور ڈاکٹر اسے چند مفید دوا و غذا اور ورزش تجویز کرے.
تو کیا اس وقت اوپر بیان کردہ سوچ و منطق کے پیش نظر وہ یہی کہے گا،کہ میں نے اب تک بآسانی دستیاب لازمی غذا اور ہوا پانی کا اہتمام کیا نہیں،تو اب ان تجویز کردہ مہنگی دواؤں اور غذاؤں کا اہتمام کیوں کر کروں؟ یا پھر ڈاکٹر کی باتوں پر عمل کریگا؟

ظاہر ہے دو ہی صورت ہوسکتی ہے یا تو ایسا ہی خیال ظاہر کریگا، تو جس وقت وہ یہ خیال ظاہر کرے گا جسمانی ڈاکٹر اسے فورا کسی دماغی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے!
یا پھر ڈاکٹر صاحب کو اپنا محسن جانتے ہوئے انکا شکر گزار ہوگا اور اب تک جو کچھ کمی کوتاہی اس نے کی ہوگی اسکی تلافی کا اسے حسین موقع جانکر ڈاکٹر کی باتوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کریگا.
عام سنت و قربانی اور دیگر فرائض کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح  کا ہے.جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ روحانی بیماری اور ان کا علاج ایک مسلم حقیقت ہے.انہیں کسی بھی بہکاوے میں آیے بغیر ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے.

امید کہ راقم کی باتوں سے آپ کے سوالات و جوابات واضح ہوگیے ہونگے.دیگر اہل علم سے بھی آپ ان باتوں کو سمجھ سکتی ہیں.دعا گو ہوں رب کریم ہم سب کو اپنی مرضیات پر قائم رکھے آمین!

Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari 

توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا
15/07/2021


muftitmufti@gmail.com
+91 9006607678 +918789554895

تبصرے