شرعی قوانین اور جرائم کا صدور؟ توقیر بدر القاسمی آزاد
مفتی صاحب السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ!
عرض یہ ہے ایک دوست کا سوال ہے جب ایک انسان اپنے آپ میں آزاد پیدا ہوتا ہے. تو اسے پابند کیوں کر بنادیا جاتا ہے؟دراصل وہ ادب و فلسفہ کا مطالعہ کرتا رہتا ہے.اسے ایک جگہ یہ چیز نظر آئی کہ آج معاشرے میں{Crimes } جرائم "گھٹن"{suffocating} کی وجہ سے ہوتے ہیں اور یہ گھٹن عموماً پابندیاں مثلا شرعی پابندی {Legal limitation} یہ پابندی وہ پابندی ان سب کا نتیجہ ہوتی ہے.گویا شرعی پابندی یہ گھٹن اور جرائم کا سبب بن جاتی ہیں؟ ایسا کیوں نہ کیا جایے کہ یہ پابندی ختم کردی جایے اور ایک انسان کو فطری انداز میں جیسے آزاد {Autonomous} پیدا ہوا ہے.اسی طرح جینے کا حق دیا جایے؟
آپ بھی جانتے ہونگے کہ اب ان باتوں کو ڈھکے چھپے انداز میں نہیں؛بلکہ علمی مکالمہ و بحث کی آڑ میں ہر ایک میڈیم سے منظم طریقے سے اچھالا جاتا ہے اور نام نہاد مکالمہ {Dialogue} و آرگیومنٹ {argument} کی آڑ میں اسکی تخفیف کرکے نسل کو نو گمراہ کرنے کا سامان خوب خوب کیا جاتا ہے.
اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ آپ براہ کرم اس سلسلے میں تسلی بخش وضاحت فرما دیں مہربانی ہوگی!
آپ کا بھائی دوست ناصر مجیدی
===================
وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو یہ بتادوں کہ راقم بھی ادب و فلسفہ کا مطالعہ کرتا رہتا ہے.اب تک کے مطالعے سے تو اسی نتیجے پر پہونچا کہ ادب و فلسفہ بھی ایک انسان کو بہتر سے بہتر راستہ دکھاتا ہے.اکثر اسکے نتائج{Results} یا تو شرعی ہدایات و قوانین {Sharia laws principles &} کے معاون ہوتے یا پھر اس حوالے سے خاموش رہتے ہیں.
معلوم نہیں آپ کے دوست نے کس ادب و فلسفہ کو اس اپیل کے ساتھ پڑھا ہے؟ کس نقطہ نظر سے پڑھا ہے؟اور کس درجے کے ادبی لکھاری کو پڑھا ہے؟ محسوس یہ ہوتا کہ فن سے لیکر نقطہ نظر تک ہر دو سطح پر وہ مغالطے{Fallacies} کے شکار لکھاری کو پڑھ کر خود بھی مغالطے کا شکار ہوگیا ہے.
"مغالطے کا شکار" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ سماج میں مزعومہ ' گھٹن اور جرائم ' کی یہ بحث عموما 'نفسیات' کے ابواب میں نظر آتی ہے.ادب و فلسفہ سے اس کا کیا جوڑ؟ہاں ادب و نفسیات کہا جاتا تو کسی حد تک گوارا تھا.اور 'علم نفسیات' میں بھی اس زاویے سے بحث فقط آسٹرین طبیب و فلسفی اور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ {Sigmund Freud} {متولد١٨٥٥:متوفی ١٩٣٩}کے یہاں ملتی ہے،جو ہر ایک انسانی عمل و اقدام اور جذبہ و تحریک کو جنسیات {Sexuality} سے منسلک کرکے دیکھتا اور دکھاتا ہے.جس کا رد خود اسکے دوست اور ساتھی ژونگ نے بھرپور طریقے سے کیا ہے.
الغرض آپ کا دوست ہر دو سطح پر مغالطے کا شکار ہوکر جلد بازی میں نہ تو درست نتیجہ اخذ کرپایا نہ وہ انصاف سے کام لے سکا،ساتھ ہی ساتھ وہ اعداد و شمار کی روشنی میں حقائق کی دنیا بھی نہ دیکھ سکا؛جبکہ آج کا یہ علمی منہج {Scientific Method} فکر و نظر کے لیے انتہائی ناگزیر ہے.
ان مغالطے،ناانصافی اور جلد بازی کی حقیقت آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں.
ایک تو انہوں نے نفسیات کی بات کو ادب و فلسفہ کا بنادیا،ناانصافی دیکھیے اس نے 'شرعی پابندی' کا نام لیا مگر دیگر پابندیوں کو گول کردیا. ایں آں سے کام چلا کر سارا ٹھیکرا شرعی پابندی کے سر ڈال دیا.جلدبازی کا عالم یہ ہے کہ اسلامی پابندی کو یکطرفہ تو دیکھ لیا؛مگر اس سے مربوط جو سہولت ہے،اس کا پتالگانے سے قاصر رہا.پیدائش کے وقت آزاد ہونا دکھائی دیا، مگر بعد کی زندگی کو پیدائش کے وقت پر قیاس کرکے سارے سماجی تعلقات و روابط کو نظر انداز کردیا. آخر یہ کون سی منطق ہے؟اس پس منظر میں { autonomous}جیسی اصطلاح کا بیجا استعمال الگ کر بیٹھا!اس لفظ کی حقیقت آج کے تناظر میں اسے پھر سے جاننے کی ضرورت ہے.بتادوں کہ یہ لفظ خود مختاری کو جہاں بعد میں بتاتا ہے،وہیں پہلے "خود پر قابو اور خود کو پابند"سے اپنی اہمیت واضح کرتا ہے.
علمی منہج کے مطابق اعداد و شمار کی اندیکھی کا تو کیا کہنا؟ بھولے پن کی انتہا ہو گئی.اکیسویں صدی میں بھی اس پروپیگنڈہ کو حقیقت سمجھ بیٹھے! جبکہ انہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم گوگل {Google} کرکے ہی دیکھ لینا تھا؛ کہ جن ممالک میں شرعی پابندیاں عائد ہیں اور ان کے حکمران و عوام اس کی اتباع کرتے ہیں.وہاں جرائم کی شرح کیا ہے؟ اور جو ممالک اسلامی و شرعی پابندیوں سے از سر تاپا آزاد ہیں.خیر سے انہیں 'ترقی یافتہ' بھی کہا جاتا ہے.وہاں جرائم کی شرح کیا ہے؟جرائم بھی 'چغلی،غیبت' یا دھوکہ دہی 'سے معنون نہیں،بلکہ قتل،عصمت دری،چوری،ڈاکہ زنی،رشوت ستانی اور قتل عام و انسانی ہلاکت سے معنون ہیں.
خیر سرچ و سروے کرنے کی اب تک زحمت نہیں کی،تو اب کرکے دیکھ لیں!کون جرائم میں سر فہرست{Top} ہے.وہ سب سامنے آجایگا.
اسی کے ساتھ جیسا کہ عرض کیا گیا آپ کے دوست نے انصاف سے کام نہیں لیا،اگر انصاف سے کام لیا ہوتا تو وہ جرائم اور خاتمے کے لیے اصل سبب کا پتا لگاتے ہوئے ان سر فہرست ممالک اور وہاں رائج قانون کو ہدف ملامت بناتے،جہاں آیے دن انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان قوانین و پابندیوں کی تحسین و تعریف کرتے جن کے طفیل رائج ممالک میں یہ جرائم میں نا کے برابر ہیں.
جہاں تک شرعی پابندیوں کی بات ہے.تو واضح رہے کہ یہ پابندیاں جس دین سے کشید ہے وہ یکطرفہ پابندی ہی نہیں؛کہ فقط مزعومہ گھٹن پیدا کرے؛بلکہ وہ ہر گام سہولت فراہم کرنے والا دین فطرت ہے.چنانچہ مزعومہ گھٹن سے بچاؤ کے واسطے ساتھ ہی ساتھ یہ قدم قدم پر سہولت فراہم کرنے والا بھی ہے.اس نقطہ نظر{point of view} سے دیکھا جایے تو محسوس ہوگا کہ یہ پابندیاں نہیں،بلکہ یہ سراسر مفید انسانیت اور روحانی پاکیزگی کا سر چشمہ ہیں.آگے اسکی مثالیں آرہی ہیں.
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ان شرعی پابندی و قوانین کا فلسفہ بیان کردیا جائے. ہم آپ جانتے ہیں کہ جسمانی سکون و اطمینان اور اسکے بقا و استحکام کے لیے روٹی کپڑا اور مکان ناگزیر ہے.اسی کے ساتھ روحانی و جنسی تسکین اور نسل انسانی کی افزائش کے لیے نکاح ایک مہذب و مستحکم {Institution} ادارہ ہے.
ان سبھی ناگزیر فطری تقاضے کو بنا کسی فساد و عناد پورا کرنے لئے ہر جا انسانی سماج میں قانون و دستور اور ان کی حاکمیت ناگزیر ہے.ہاں البتہ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ اگر اس قانون و دستور کا بانی و خالق انسان ہو تو بیجا تحفظات، ذاتی مفادات دور اندیشی سے خالی اور جانبداری سے پر ہوگا،جبکہ وہ الہامی و آسمانی ہو تو ان سبھی الزامات و اعتراضات سے پاک و بری اور انسانی فطرت کے مطابق پاپندی و سہولت سے لیس ہوگا.
اس وضاحت کے بعد آپ دوست سے پوچھیے اسلام و شریعت میں اگر زنا پر پابندی ہے اور یہ گھٹن کا باعث ہوسکتی ہے،کیا اسی اسلام میں تو ازالہ گھٹن کے لیے آسان سے آسان تر نکاح کی سہولت اور اسکے فضائل نہیں ہیں؟ایک نہیں چار چار سے نکاح کی اجازت نہیں؟اسی طرح اگر چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے.تو کیا قحط اور ایمرجنسی و اضطرار (گھٹن) کی صورت میں معافی نہیں؟اگر غربت چوری کی وجہ اور چوری ہاتھ کاٹنے کی وجہ اور یہ پابندی نطر آتی ہے،نتیجتاً گھٹن اور جرم ہوتا دکھائی دیتا ہے،تو کیا غریب کے لیے زکات و عطیات ایک مؤمن صاحب ثروت وبیت المال و امیر پر لازم نہیں؟ کیا چوری کہ جگہ طلب و سوال نہیں؟ قرض حسنہ کی تاکید نہیں؟الغرض وہ کون سی ایسی پابندی ہے،جو گھٹن پیدا کرتی ہے اور اس گھٹن سے بچاؤ کی سہولت اسلام و شریعت میں میسر نہیں؟اگر کسی کا سامان غصب یا جان ضائع ہوجایے تو کیا اسکا انتقام اور آئندہ ایسی حرکات کا سدباب حکمران پر لازم نہیں،تاکہ رد عمل میں کوئی بیجا گھٹن کا شکار ہو کر قانون ہاتھ میں نہ لے لے اور مزید قتل و غارت کا بازار گرم ہونے لگے؟
کیا سہولت پر مبنی یہ سبھی قوانین یوں روحانی پاکیزگی کا آئینہ دار نہیں؟کیا یہ سہولتیں سراسر مفید انسانیت نہیں؟نماز،روزے،حج کی لازمیت و پابندی تو اپنی نافعیت و اہمیت میں مزید عیاں ہیں.
بہر حال آپ ہمیں ان سے پوچھ کر بتائیں کہ آخر کس پابندی سےگھٹن اور پھر جرم کی نوبت آتی ہے؛ جس کا خاتمہ انہیں ناگزیر محسوس ہوتا ہے؟
کون نہیں جانتا سماج کی ترقی کے لیے سماج سطح پر بیرونی پابندی کے ساتھ ساتھ فرد کی سطح پر باطنی پابندی ناگزیر مانا جاتا ہے.آپ خود پر قابو {Self control} جیسی اصطلاح سے تو واقف ہونگے ہی. اس پر ان گنت لیکچر، کتب، مضامین آج اردو سے زیادہ انگلش میں جا بجا مل جائیں گے.صرف نظریاتی باتیں ہی نہیں بلکہ عملی اقدام، یوگا، ورززش اور کھان پان میں کٹوتی یہ سب " پابندیاں" انکو دکھائی نہیں دیتی؟ کیا یہ پابندی پابندی نہیں؟ کیا یہاں انکے { human autonomous} کو دھچکا نہیں پہونچتا؟
کبھی ان سبھی کڑیوں کو فرد سے لیکر سماج تک سود مند یا نقصان دہ کے تناظر میں جوڑ کر دیکھیے گا اور اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کیجیے گا سارا "فلسفہ پابندی" سمجھ میں آجایگا.
آخر میں یہ عرض کردوں کہ دنیا جب تک قائم رہیگی یا اسے قائم رکھنی ہے،تب تک پابندی اور قانون و آئین کی حکمرانی کسی نا کسی شکل میں باقی رہیگی.گھر سے لیکر اسکول تک، کارخانے سے لیکر پارلیمنٹ تک ہرجا اس کی حکمرانی ہے اور رہیگی.اس سے مفر نہیں، ہاں الہامی دستور و انسانی دستور کا فرق ہوسکتا ہے؛اوپر اس کا تذکرہ ہم کر آئے ہیں.تاہم یہ دستور ہمیشہ رہیں گے!جرائم اسی سے کنٹرول ہونگے!
ایک سوال یہ بھی ہے کہ جن جن میڈیم و ذرائع سے شرعی پابندی کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے.وہ ان ہی پلیٹ فارم سے ان انسانی دستور و قانون کے ازالے کی بات کیوں نہیں کرتے؟اس پابندی پر کیوں ایمان دھرتے ہیں؟ کبھی ان پر بھی تو بات کریں!پابندی اور فلسفہ پابندی اس راستے سے بھی سمجھ میں آجایگا!
امید کہ ان معروضات سے سوال کی حقیقت واضح ہوگئی ہوگی. دعاؤں میں یاد رکھیں! رب کریم ہم سب کو اپنی مرضیات پر باقی رکھے آمین!
Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari
توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا.
3/07/2021
@muftitmufti@gmail.com
+918789554895
+91 9006607678
اعلی
جواب دیںحذف کریں