قربانی پر عجیب ملحدین کے غریب اعتراضات :مفتی توقیر بدر القاسمی آزاد
السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ!
حضرت چند باتوں کی آپ سے علمی و عقلی وضاحت چا ہونگا برایے کرم وقت نکال کر بتانے کی زحمت کریں!
ایک تو یہ کہ ملحدین{ETHIEST} بڑے زور و شور سے قربانی پر یہ اعتراض اٹھاتے رہتے ہیں،کہ آخر کون سی عقل اس بات کی اجازت دے سکتی ہے،کہ چشم زدن میں لاکھوں لاکھ جانور تلف کردیا جایے اور پھر اس پر ثواب کی امید رکھی جایے؟
اسی طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں اپنے خدا سے ثواب ہی لینا ہے،تو ان پیسوں سے کچھ اچھا کام کرو!
انسانیت کے نفع کا کام کرو! اسکول ہسپتال قایم کرو!یوں اتلاف جان و مال سے بھی بچ جاؤگے اور عقلی لحاظ سے کویی تم پر اعتراض بھی نہیں کرے گا! اور تمہارا خدا بھی خوش ہوگا.
افسوس کہ انکی ان باتوں میں سادہ لوح مسلمان یا پڑھے لکھے آزاد خیال دوست بھی اب آجاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ بھائی یا تو تم ہمیں دلیل سے قائل {Convince} کرو یا پھر نفع انسانیت کے پیش نظر ملحدین کی بات تسلیم {accept} کرو!
مفتی صاحب دھیان رہے یہ وہ ملحدین ہیں،جو گوشت خوری یا جیو ہتیا کے خلاف نہیں ہیں.انکو اعتراض ایک دو دن میں اس قدر اتلاف بشکل اسراف پر ہے!
اب عشرہ ذی الحجہ شروع ہے. یوم اضحیہ کی آمد آمد ہے.قربانی اور ملحدین پر لکھنے والے لکھ رہے ہیں وہ سامنے آرہے ہیں. میں اردو پڑھ لیتا ہوں تھوڑا لکھنے میں کمزور ہوں.پرسوں آپ کا بلاگ وزٹ کیا.ماشاءاللہ وہاں کافی باتیں اطمینان بخش ملیں!
سو امید ہے کہ مذکورہ باتوں کا جواب بھی آپ ہمیں اصولی انداز میں عقلی طور پر بتاکر مشکور ہونگے!ممکن ہو تو تھوڑا اصولی وضاحت اس طرح سے کردیں گے کہ اسکے مطالعہ کی روشنی میں ہم انکے دیگر اعتراضات کے جوابات بھی دینے کے اہل ہوسکیں. شکریہ!
امجد طاہر/پ شاور /پاک
==============
وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ معترض نے عقلی اعتراضات{Ratioanl Objections} و ہفوات دینی احکام {Spiritual Orders} پر جڑے ہیں.یہ اسکی پہلی "بھول" اور دام اعتراض میں آنے والے پڑھے لکھے مسلمان ساتھی کا "بھولاپن" {Simplicity} ہے.
دنیا نہ صرف جانتی ہے، بلکہ اس سے مکمل اتفاق رکھتی ہے،کہ جب بھی کبھی کسی چیز پر گفتگو کی جاتی ہے،تو پہلے اس کے دائرہ و حدود کو اسکے اصل منابع {Origin} سے طے کیے جاتے ہیں اور پھر اس پر گفتگو کی جاتی ہے.
مثلا جب ہم موجودہ اشتراکی نظام پر گفتگو کرتے ہیں تو داس کیپٹل کی بات آتی ہے اور اسکے مطابق ہی گفتگو آگے بڑھائی جاتی ہے.ارتقا کی بحث جب ہوتی ہے،تو پھر ڈارون اور نظریات ڈاروینین کو سامنے رکھتے ہیں اور اس پر بحث کرتے ہیں.میڈیکل کی بات کرتے ہیں تو اسکے اصول سامنے رکھتے ہیں.کسی ملک کی بات کرتے ہیں تو وہاں کے دستور و قوانین کو سامنے رکھتے ہیں.
حاصل مدعا یہ کہ ان امور پر جب گفتگو کرتے ہیں،تو مطلق نہ تو عقل چلاتے ہیں اور نہ کویی یہ کہنے کی جرات کرتا ہے،کہ فلاں کام غلط ہے. بکواس ہے.اسے ایسے ہونا چاہیے.عقل یہ کہتی ہے؟ عقل اسے مانتی ہے؟ عقل اسے مسترد کرتی ہے؟وہاں انسانی دستور و قانون اور مفروضے پر ایمان لائے سر تسلیم خم کیے رہتے ہیں.
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان قوانین کو انسانی عقل ہی نے ترتیب دی ہے،یہاں اس بحث کی پوری پوری گنجائش ہے.مگر پھر بھی سناٹا.
اور وہ باتیں اور احکام جو انسانی عقل و دماغ کی نہیں،بلکہ مکمل آسمانی و الہامی ہیں.وہاں یہ عقل انسانی کو زبردستی گھسیڑتے رہتے ہیں.جب کہ جانتے ہیں کہ ان میں ان عقلی بحثوں کی حتمی گنجائش قطعا نہیں ہے،یہ مانتے ہیں کہ جب حتمی بات اور عقل معیار کی بحث نکلے گی.تو پہلا سوال یہ ہوگا؛کہ کس کی عقل کا اعتبار کیا جایے؟ فلاں قبیلے یا برادری کا اعتبار کیا جایے.یا فلاں شخص و انسان کا؟یا فلاں ملک و محلے والے کا؟ صنف میں عورت کا اعتبار کیا جایے یا مرد کا؟عمر میں کس عمر والے کا اعتبار کیا جایے؟ جوان کا یا پیر فرتوت کا؟الغرض یہ سلسلہ لا إلی نہایہ تک جاتا رہیگا!
ہوگا پھر یہ کہ صبح قیامت تک اس عقل معیاری والی بحث کا حل نہیں نکل سکتا،اس عقل معیاری کی تلاش اور اسکی روشنی میں مسئلہ حل کرنے بیٹھیں گے،تو مسائل جوں کا توں پڑے رہ جائیں گے وہ کبھی حل نہیں ہونگے!
خیر جب زیر بحث ایک دینی حکم" قربانی" کی بات کر رہے ہیں،تو کیا مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر اور بیان کردہ متفقہ و مسلمہ قاعدے کے مطابق وہ ملحدین قرآن و احادیث کو سامنے نہیں رکھ سکتے؟ کیا قرآن و حدیث کو نظر انداز کرکے عقلی گھوڑے دوڑانا،یہ خود انکے اپنے طے کردہ اصول بحث سے انحراف نہیں، بلکہ کیا یہ منافقت {Hypocrisy} اور دوہرا پن {Duplicity} نہیں؟
افسوس الحاد کی بنیاد ہی اس منافقت و دوہراپنی پر ٹکی ہویی ہے.
یاد رکھیے مذکورہ اصولی لحاظ سے اس حکم قربانی کا روحانی،مادی، انفرادی، اجتماعی،سماجی و اقتصادی پہلو وہی قابل قبول ہوگا اور کرنا پڑیگا،جو قرآن نے ہمیں بتایا ہے اور صحیح احادیث میں جس کی وضاحت ہمیں ملتی ہے.یہ ایک دینی حکم ہے.تو اسے دین کے مذکورہ سرچشمے اور اسکے چوکھٹے {Frame work} میں ہی رکھ کر دیکھنا درست دیکھنا کہلایگا!ہمارا خدا ہم سے کیسے خوش ہوگا وہ ہمیں اس چوکھٹے کے اندر سے معلوم ہوگا کسی ایرے غیرے باہر والے سے ہرگز نہیں!
ورنہ پھر چوک چوارہے پر بیٹھے جوتا گانٹھنے والے کو بھی ناسا{ NASA} کی فراہم کردہ تحقیق و تصویر پر لیکچر دینے اور ان کے ہم کام و ہم مقام دیگر افراد کو اس پر ہنسنے کا موقع فراہم کرنا ہوگا. جب کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں کم از کم انسانی سطح پر فضا و خلا والے اور چوک چوراہے دونوں ایک جیسے ہی ہیں، مگر دینی بات اور ملحدین میں تو کسی سطح بھی پر ادنی یکسانیت بھی نہیں ہے!
لہذا ایسوں سے کہیں کہ اسے قرآن میں دیکھتے ہیں.قربانی کا حکم توآسمانی مقدس کتاب قرآن میں ہے.قرآن نے قربانی کو قربت الٰہی کا ذریعہ بتایا ہے.اسے شعار تقویٰ قرار دیا ہے.جبکہ احادیث میں یہ ہے کہ ان تین دنوں میں بندہ کی طرف سے "اراقہ دم" رب کے حضور سب سے زیادہ پسندیدہ ومحبوب عمل ہے.ظاہر ہے جو عمل پسندیدہ ہو قرب خداوندی کا ذریعہ ہو، اس سے امیدِ ثواب نہ رکھا جایے تو کیا رکھا جایے؟
آخر ایسے مقرب عمل کو بظاہر مادی سطح پر بھی کیوں کر اتلاف جان اور اسراف قرار دیا جاسکتا ہے،جس سے کم از کم دنیا بھر میں تین دنوں تک کروڑوں غریب و مفلس اور نادار تک مفت و صحت مند سراپا پروٹین Proten والی غذا فراہم کرنے سبیل پیدا ہوتی ہے؟
اسکے چمڑے سے لیکر ہڈی تک سے انسانیت کی خدمت و نفع کا نظم ہوتا ہے.
ہاں اگر یہ عمل قرآن و حدیث میں غیر دانشمندانہ عمل اور اسراف قرار پاتا.جیسا کہ جس موقع پر جو اسراف ہے.اسےقرآن مقدس نے برملا اسراف کہا ہے،اگر ایسا کہتا،تو ہمیں ملحدین کی بات اپیل کرنے والی ہوسکتی تھی، مگر اس بابت ایسا کچھ بھی نہیں ہے!
الغرض اس دینی حکم کو انسانی عقل اور ملحدین کے دماغ سے پرکھنا اور دیکھنا ایسا ہی ہے.جیسے ایک اندھے بہرے اور گونگے کا کسی پر رونق دیدہ زیب اسٹیج سے چھری راگ و ساز اور پرکیف و پر سوز آواز پر اسکی فنی خامی نکالنا اور بلند آہنگ میں تبصرے کا دعویٰ کرنا!
اس پہلو سے دیکھیے گا تو معلوم ہوگا کہ جس طرح یہ ایک صاحب ذوق اور انصاف پسند انسان کے لیے ایک بھونڈا مذاق اور قابل استہزا معلوم ہوتا ہے.ٹھیک اسی طرح سے آسمانی و الہامی، وحی پر مبنی عرشی کلام پر ،ایک فرشی محدود عقل والے ملحد کا اعتراض بھونڈا و مذاق معلوم ہوتا ہے.
جہاں تک اسکول و ہسپتال بنانے اور رب کریم کو خوش کرنے اور ثواب پانے کی امید رکھنے کی بات ہے، تو یاد رہے کہ اس ثواب والے مشورے کو بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں میں پرکھا جایے گا.
اس حوالے سے ملحدین کو چاہیے کہ اسلامی مالی و نفع انسانی والی ہدایات مثلاً زکوٰۃ، عشر،صدقات واجبہ نافلہ،غنیمت ،وقف، ہبہ،وصیت، وراثت، نذر وغیرہ کے احکام کو پہلے اچھی طرح سے پڑھے.اسکول و ہسپتال انکے یہاں کیا ترجیحات رکھتے ہیں.انہیں دیکھے پھر مال خرچ کر کے ثواب پانے کا لیکچر کسی مومن کو دے!
اور اگر وہ پھر بھی یہی چاہتا ہے کہ ان مالی انفاق اور انسانی فلاحی کام کے ساتھ ساتھ قربانی کا پیسہ بھی غریبوں کو ہی دے دینا چاہیے یا ان کے لیے سکول و ہسپتال بنادینا چاہیے.
تو پھر اس سے پوچھیں کہ بھائی یہ حکومت اور سرکار کس کام کے لیے ہوتی ہے؟ان وزراء کی پر تعیش زندگی اور ہٹو بچو والے پڑوٹوکال سے کس کا بھلا ہوتا ہے؟بھاری بھرکم ٹیکس آخر کیوں دیا جاتا ہے؟
سوال تو یہ بھی ہونا چاہیے کہ تمہیں محدود جانور اور مخصوص تین دن کی قربانی اتلاف جان کی شکل میں دکھائی پڑتی ہے، مگر میکڈونالڈ سے لیکر پزا ہٹ اور برگر کنگ سے لیکر کے ایف سی تک تین سو ساٹھ دنوں،چوبیس گھنٹوں بنا کسی تخصیص کے کھربوں جانوں کا ضیاع ہوتا رہتا ہے.وہ نہیں دکھتا؟
ایسا ہی کچھ عیسائیوں کے کرسمس کے موقع پر یوم شکر، یہودیوں کے یوم کفور اور ہندوؤں کے گاندھی مائی سے لیکر بالا جاترا جیسے تہواروں میں دیکھنے کو ملتا ہے.
یہ کاروباری و تہواری نہ مرغی کو چھوڑتے ہیں نہ چوزے کو، نہ بھنیس کو بخشتے ہیں نہ چوہے کو، نہ سانپ کو چھوڑتے ہیں نہ چھچھوندر کو، اسکے باوجود یہاں تمہیں نہ اتلاف نظر آتا ہے نہ اسراف دکھتا ہے اور نہ ماحولیات کی گڑبڑی محسوس ہوتی ہے.
ہاں مگر قربانی میں محدود طریقے سے مشروط جانور جنکی عمر اور جنس بھی طے ہوتی ہے،وہی قربان کیے جائیں،وہ غریب غربا میں مفت تقسیم ہوں. وہاں تمہیں اسراف و اتلاف سب دکھنے لگتا ہے.
یہاں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یوں بنا تخصیص جانور و حشرات کو کاٹ کر فروخت کرنے والے کو کاروبار و تہوار کی آڑ میں چھوٹ مل جاتی ہے. انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے.ظاہر ہے کہ نظر انداز کرنے والے مادیت زدہ بطن پرست آخر روحانی دنیا میں ہونے والی ہلچل کو کیونکر سمجھ سکتے ہیں.
ان سے تو سوال یہ بھی ہوسکتا ہے،کہ جگہ جگہ شہر شہر سنیما ہال، ڈانس کلب، جوئے گھر و شراب خانے اور چکلہ کیوں کھول رکھے ہو؟ممکن ہے انٹرٹینمنٹ کے نام پر اسے بھی دائرہ جواز میں لے لیں! مگر قربانی انہیں کسی طور قبول نہیں!اس سے بھی خرابی کہاں ہے یہ سمجھ میں آسکتا ہے.
یہ آئینہ پیش کرنے کے بعد پھر پوچھیں کہ ان سب کو روک کر اسکول ہسپتال کیوں نہیں بنا تے؟اگر بنا سکتے ہو، تو ان سے بناؤ! قربانی جیسی عظیم الشان عبادت پر کیوں آوازہ کستے ہو اور اس پر رال ٹپکاتے رہتے ہو؟
اور اگر نہیں بنا سکتے،تو پھر حکومت منتقلی کی تحریک چھیڑو اور اس ادارہ کو انصاف پسند حاملین قرآن کے حوالہ کرنے کی اسی شدت سے آواز اٹھاؤ،جس شدت سے اعتراض کرتے ہو،پھر دیکھنا کس طرح یہ قربانی دینے والے اسلامی تعلیمات کے مطابق تمہاری امید سے بڑھ بڑھ کیا کچھ کر دکھاتے ہیں.ہاں مگر پہلے اسکے لیے تحریک چلاؤ، عوام کو راضی کرو.حاکم انہیں چنو پھر اسکے بعد اس قسم کے سوال کرنے کی جرات کرو ورنہ یہ جرات، جرات بیجا کہلائیگی!
یقین نہ آیے تو ان حاملین قرآن کی حکومت پر مبنی ماضی کی تاریخ ابھی بھی ریکارڈ پر موجود ہے.انہیں دیکھ لو ایشیا و افریقہ اور یوروپ تک انکی ترقی کے نشانات آج بھی تمہیں جگہ جگہ مل جائیں گے!
آپ ان سے یہ کہیں یا تو یہ کرسکتے ہو تو کرو!یا پھر مادیت گزیدہ کھوکھلی، کمزور اور جراثیم نما انسان خوردہ جڑ و سسٹم سے پھیلی غربت و جرائم والی شاخ پر وار کرنے کے بجایے،کسی خوشبودار و مضبوط جڑ کی پھلدار شاخ پر پتھر مت پھینکو!ورنہ دنیا تمہیں پاگل کہے گی اور آنے نسلی بھی خوب ہنسیں گی!
امید کہ انکی نام نہاد عقلی و بودی سوالات کے جوابات ان عقلی اصول و کلیات کی روشنی میں کسی حد تک قابل فہم ہوگیے ہونگے!
دعاؤں میں یاد رکھیں!
Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا
18/07/2021
+918789554895
+919122381549
muftitmufti@gmail.com
Noor-o-shawoor.blogspot.com
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں