دینی شعائر کی بے حرمتی گوارا کیوں کر؟ توقیر بدر القاسمی آزاد
قرآن کریم کا جلایا جانا یا مساجد کی بے حرمتی قابل قابل قبول کیوں؟
مفتی صاحب السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ!
اگر کوئی یہ کہے کہ کسی چیز کا مقدس ہونا ہماری نظر میں ہوتا ہے.کسی دوسرے پر لازم نہیں ہے کہ اس چیز کا ویسا ہی احترام کرے جیسا ہم کرتے ہیں.
وہ مثال پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب دیکھیے نا گائے ہندو دھرم کے نزدیک قابل احترام ہے،مگر جن ملکوں میں اجازت ہے وہاں مسلمان اسے ذبح کرکے کھاجاتے ہیں.
قوم ابراہیم کے نزدیک انکے بت قابل احترام تھے،مگر پیغمبر ابراہیم علیہ السلام نے انہیں کلہاڑا مار توڑ پھوڑ دیا.ادھر مسلمانوں کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم بھی ہے.
اسی طرح پیغمبر اسلام نے کعبہ میں رکھے مشرکین مکہ کے لیے قابل احترام بتوں کو توڑا .صحابی جریح رضی اللہ عنہ کو بھیج کر کعبہ یمانیہ کو مسمار کروادیا گیا.
مرزیی حضرات کے نزدیک مرزا قادیانی نبی اور قابل احترام ہے مگر مسلمان اسے گالیاں بگتے ہیں.لعنتیں بھیجتے ہیں.بارہا لوگوں کو یہ یاد دہانی کروانا فرض سمجھتے ہیں کہ مرزا کی موت کس طرح ہویی تھی اور کہاں ہوئی تھی.
اسی طرح مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرب قیامت حضرت عیسٰی نزول فرمائیں گے.اور صلیب توڑیں گے جبکہ عیسائیوں کے نزدیک یہ صلیب تو قابل احترام ہے؟
اہل بیت کی مقدس ہستیوں کے مزار عرب میں توڑ دییے جاتے ہیں؛جبکہ وہ دیگر بھائیوں کے نزدیک قابل احترام تھے.
تو اصولی طور پر جب یہ طے ہوچکا کہ سب اپنے اپنے قابل احترام کا احترام کریں!اس بابت ایک کا دوسرے پر احترام لازم نہیں! لہذا اگر کبھی مسجد یا قرآن کی بے حرمتی کی بات سامنے آتی ہے،ان پر نقد ہوتا ہے تو ہم چراغ پا کیوں ہوجاتے ہیں؟
آپ سے گزارش ہے کہ ان نکات پر آپ تسلی بخش اپنی جوابی تحریر عنایت کریں تو مہربانی ہوگی!
====================
وعلیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ!
سوال کا جواب عرض کرنے سے قبل یہ واضح کردوں کہ محدود مطالعہ و مشاہدہ کی روشنی میں راقم کا خیال ہے کہ اس طرح کی تحریریں ایک غلط مقدمہ جیتنے کے لیے مغالطہ آمیز اور بے بنیاد و مبہم دلایل سے لیس ایک من مانا نتیجہ فراہم کرنے والی ہوا کرتی ہیں!
یہاں بھی علم و استدلال پر مبنی ایک "عمل نقد" اور "جاہلانہ و جانورانہ عمل و حرکت"توڑ پھوڑ وجلاؤ گھیراؤ کو ایک ساتھ گڈ مڈ کرکے جہالت زدہ دانشوری کا مظاہرہ کیا گیا ہے.
چنانچہ یہاں ہر انصاف پسند یہ کہے گا کہ "توہین اور تنقید" میں فرق و امتیاز کو بھرپور طریقے سے bypass ونظر انداز کیا گیا ہے.
"توہین"{Insultment} کسی کو گھٹیا نفسیات کے نتیجے میں طیش دلانا اور چِڑھانا ہوا کرتا ہے، جبکہ "تنقید" {Critiquing} دلایل کی زبان میں اپنی بات رکھ کر اپنا مدعا کلیر کرنا ہوتا ہے.جب کہ پیش کردہ أمثال میں سمجھ سکتے ہیں ہے کیا کچھ کرنے کی اجازت چاہی جا رہی ہے اور کن کن حرکات کو معمول کا حصہ بنانے {Normalized} کی کوشش کی گئی ہے؟
دراصل جب سے "مکالمہ بین المذاہب" کو نام نہاد تشدد کے نام پر عقل و فہم سے دور بے بنیاد و بے استدلال و نا پختہ افکار والے مادہ پرست پجاریوں نے فروغ دینے کی کوشش کی اور حق و باطل سبھی کو یکساں درجہ دییے جانے اور ماننے کی تحریک چلای،تبھی سے اس طرح کے خیالات پنپنے شروع ہویے!اور" بیجا تقابل" کا دور شروع ہوا.
خیر جواب پانے سے قبل ان سب پر سوچیے کہ آخر تنقید ترک کرکے،تقابل اور پھر توہین و تضحیک یہاں کیونکر اور کیسے؟
آییے انہیں پرکھنے کے لیے چند مقدمات طے کرتے ہیں!
اول:کیا کاینات کے ازلی ابدی اٹل خالق کا بنایا ہوا قانون،اور ایک ہر پل بدلتا فانی انسان کا گھڑا ہوا لا، ہر آن بدلنے کے کگار پر ڈگمگاتا ہوا "مجموعہ متضاد خیالات وافکار "؟کیا ان کے مابین کسی بھی سطح سے تقبل{ Comparing} ممکن ہے؟
کیا یہ "تقابل" {Comparing} کی توہین نہیں؟
دوم :ایک نظریہ کفر و شرک اور اسکی علامت و شوکت کو بعد إتمام حجت و إتمام دلایل مٹانے آیا اور اپنے دائرہ اختیار میں ایسا کرنے کا وہ پابند ہے، جبکہ دوسرا علامات شرک و افکار کفر سے پُر کفر اور سراسر کفر! کیا ان میں تقابل ممکن ہے؟
کیا یہ دونوں "تقدیس" کی سطح پر برابر ہوسکتے ہیں؟
واضح رہے یہاں برابر مان لیے جانے پر ہی تقابل اور تزاحم کو لیکر یہ سوالات اٹھتے ہیں!
سوم: ایک کام کسی کی دل آزاری اور گھٹیا نفسیات کا نتیجہ ہوتا ہے،جبکہ دوسرے کی طرف سے ایک انجام پانے والا امر بعد إتمام دلایل و تنقید و تحقیق ایک مذہب میں اس کی نہ صرف اجازت،بلکہ اسے کر گزرنے حکم ہوتا ہے.جبکہ دوسرے دھرم و مذاہب بھی یاتو اسکی تائید کرتے یا پھر خاموش رہتے ہیں.تو اس حوالے سے وہ ایک متفق و مجمع علیہ امر بن جاتا ہے.گویا اس پرسبھی دھرم والے کا اصولی لحاظ سے اتفاق ہوتا ہے.الہامی و آسمانی کتب اور ان سے جڑی مقدس شخصیات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے.فلسفہ نقد بگھارے سے قبل یہ بتایا جاتا کہ کیا تقدس و احترام کے معاملے میں ہر دھرم والوں کے درمیان یہ متفق علیہ نہیں ہیں؟تو بہتر ہوتا!
چہارم:ایک ہے خود اپنے ہاتھوں ذلت و رسوائی کا سامان مہیا کرنا اور الزام کسی اور کے سر دھرنا یہ کیا چوری اور سینہ زوری نہیں ہے؟
پنجم:اظہار رایے کی آزادی کا دایرہ کہاں تک اور کیوں؟
اب مذکورہ بالا سبھی مقدمات کو دھیان میں رکھنے کے بعد ہم نتیجے پر بآسانی پہونچ سکتے ہیں!
کیا گئو کشی کا حکم بنی اسرائیل کو یہ ازالہ شرک پر مبنی ایک امر ربانی نہیں؟جس کا تذکرہ ہر دھرم میں کسی نا کسی صورت میں ملتا ہے.گایے اور شراب کھانے پینے کی روایت تو خود آج اسے ماتا ماننے والے کی دھرم گرنتھوں میں ملتی ہے.
دوسری بات آج اس گیے گزرے دور میں بھی ایک بھی مسلمان ایسا نہیں کہ وہ دل آزاری اور چِڑھانے و دکھاوے کے لیے کویی ایسا کام کرتا ہو،ورنہ ظاہر ہے ایسی صورت میں قربانی بھی ہو نہیں سکتی!
ہاں جذبہ نفی دیوی دیوتا ضرور ہوتا ہے،اور اپنی ملکیت میں آئ ایک نعمت و غذا جانکر جہاں اجازت ہے وہ وہاں اسے برتتے ہیں!
اسی طرح سے خود بائیبل میں صلیب شکنی کی روایت اور احادیث میں بلند مزارات کی انہدامی کارروائی خود انکی مذہبی کتب کا حصہ ہے، جنکی طرف سے "مدعی سست اور گواہ چست" کا رویہ اپنایا گیا ہے. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بت شکنی خود تمام تر دلایل سے قایل کرنے کے بعد مزید محقق کرنے کے لیے وجود میں آیا.
اس کے برعکس قرآن کی اہانت کا معاملہ نہ تو انکی یا کسی بھی مذہبی کتب میں مصرح و مُجاز ہے،نہ ملکی قوانین اسکی اجازت دیتی ہے.
پھر بھی فساد بھڑکانے کے ارادے سے فسادی شری قسم کے لوگ ایسا کرتے ہیں!
تو آیا یہاں ایسا بھونڈا تقابل کیونکر؟
اسی طرح خانہ کعبہ سے ازالہ بت پرستی کا حکم بعد إتمام حجت و تکمیل براہین عقلیہ قرآن و حدیث میں مصرح ہے.اسکا نتیجہ ظاہر ہے،خانہ کعبہ سے بتوں کو پاک کرنے میں ہی ظاہر ہونا تھا،سو ہوا اور جہاں جہاں بھی کلمہ گو ہوگا وہ اپنا دامن اس سے بچایگا،اسکی انفرادی یا قومی ملکیت میں ایسی کوئی چیز ہوگی تو وہ اس سے اجتناب کریگا،اسے بنا اشتعال کا سبب بنے معقول انداز سے زایل کریگا،ہاں یہاں بھی کسی کو چِڑھانے اور فساد بھڑکانے کی نیت سے وہ ایسا نہیں کرسکتا! ورنہ پھر سامنے والے انسان میں وہ دعوت کا فریضہ انجام کیسے اور کیونکر دیگا یا دے پایگا؟
کعبہ یمامیہ ایک نقلی Dummy جعلی اور فساد پر مبنی ایک گھر تھا جس کا ڈھایا جانا ایسے ہی ہے؛جیسے آج کل کویی کچھ کاپی کرکے اپنے نام کرنے کی کوشش کرے اور عدالت سے اسے سوخت و منسوخ کرنے کا آرڈر جاری ہو! جسے سبھی تسلیم کرتے ہیں چوں چراں نہیں!
رہ گیی بات مرزائی کی تو وہ از خود اپنے کردار و خیالات کی روشنی میں نہ جانے کیسے کسی کے لیے مقدس ہو سکتا ہے؟یہ کویی چشم بینا سے دور حقائق سے نفور انسان ہی مان سکتا ہے!ورنہ جس نے خودکی تالیف میں خدا اور نبی کی اہانت جگہ جگہ کی ہو ایک مسلم خزانہ پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک سعی کرکے سراپا لعنت و نحوست بنا ہو،خود کو جگہ جگہ پر جوکر و مذاق بنا کر پیش کیا ہو،اسے صف تقدس میں گرداننا یہ خود لفظ "تقدس" کی توہین ہے! ایسا سب کچھ کرکے یہاں الزام دوسرے کے سر دھرنا یہ چوری اور سینہ زوری والی بات نہیں؟
اس نے اپنی حرکات اپنے اقوال سے خود تضحیک و تحقیر کا سامان اس قدر مہیا کردیا ہے کہ رہتی دنیا تک اس پر آٹو میٹک حقارت و لعنت برستی رہیگی،اس میں کسی دوسرے کا کیا قصور!
اسی طرح سے مزارات شکنی کی جو بات کی گیی ہے کہ ایک بھائی کے نزدیک وہ قابل احترام ہے،یہ خود ایک مبہم و مجہول بات ہے.
آخر احترام کا دائرہ کیا ہے کہاں بیان ہوا ہے، اسے بتانے کی زحمت کی جاتی تو گفتگو مناسب ہوتی!
اور آخری بات کیا یہ اظہار رایے کہ آزادی اس قدر وسیع اور مطلق ہے کہ مذہبی امور بھی اس میں سما سکے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مذہبی نہیں بلکہ ایک انسانی تاریخی واقعہ ہولو کاسٹ پر لب کشائی کیوں نہیں؟ اس پر لب کشائی کیوں حبس دوام کا پیش خیمہ ہوتا ہے؟ کیا یہ منافقت اور Hypocrisy نہیں؟
امید ہے کہ ان نکات و مقدمات سے درج شدہ اعتراضات کی حقیقت اور اسکا بودا پن واضح ہوجایگا!
Mufti Touqueer Badar Qasmi Azhari
توقیر بدر القاسمی آزاد الازہری ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق انڈیا سوپول دربھنگہ بہار انڈیا سابق لیکچرار المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ انڈیا
13/07/2021
muftitmufti@gmail.com
918789554895+
919122381549+
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں