ہرسو آخر چرچا کس کا؟ توقیر بدرالقاسمی
ہر سو چرچا آخر کس کا؟
ت بدر آزاد
آج عالم بھر میں ایک خاص قسم کی وبا pandemic پھیلی ہویی ہے.اس پس منظر میں آکسیجن oxygen کی اہمیت ہر کہ و مہ پر عیاں و بیاں ہے.اب ظاہر ہے ایسی ناگہانی صورت میں آکسیجن اگر کسی ہاسپٹل میں scarcity قلت کا شکار ہو،تو ہاہاکار مچنا لازمی ہے،چہ جایکہ کسی ملک وہ بھی عظیم آبادی والا ملک اس کا شکار ہو اور وہاں آکسیجن کی شدید قلت ہوجایے.
چناچہ جب سے ملک عظیم میں آکسیجن کی کمی کی بات ہر خاص و عام تک پہونچی ہے،تب سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مانو اس کے متعلق ہر کسی کی نگاہیں اسی طرف مرکوز ہیں،جس کا ثبوت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کھولیے تو آکسیجن کو لیکر پل پل کی خبریں آپ کو ہر جا دکھائی دیں گی!
انہی خبروں کے درمیان دو مثبت خبریں ایسی ملیں جس نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی!
اول:پاکستان نے اس مصیبت کی گھڑی میں ہندوستان کی جانب اپنا دست تعاون بڑھایا،جبکہ گزشتہ سال اسی پاک کو اس پس منظر میں طرح طرح کے نازیبا تبصرے و گھٹیا کمنٹس cheap comments تعاون لینے والے سرزمین سے وابستہ انسانیت دشمنوں کی طرف سے سننے کو ملے تھے.
دوم:سعودی عربیہ کی طرف سے انڈیا کو آکسیجن کی فراہمی!جی ہاں وہی سعودی عربیہ جس سرزمین پر خانہ کعبہ ہے.اور وہ امت مسلمہ کا قبلہ ہے.وہ مھبط وحی بھی ہے اور آقایے انسانیت محمد صلی اللہ علیہ کی جایے ولادت بھی!جن کی شان میں اسی انڈیا کا ایک بدزبان مہینوں بھر بدزبانی کرکے نہ جانے کن کن آفات و بلیات سے یہاں کے آب وہوا کو،یہاں کے فضا کو اور یہاں کے سماں کو - رب ہی جانے کب تک کے لیے - مسموم بإذن اللہ و مغضوب من اللہ کرتا رہا العیاذ باللہ!
دلچسپ اور عبرت خیز بات یہ ہے کہ آج اس مغضوب و ملعون اور اس کے حمایتی کے اوپر جو کرم ہورہا ہے،وہ اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے ہورہا ہے.انہی کے شہر سے ہورہا ہے انکے ماننے والے کے ہاتھوں ہورہا ہے،جس سے نہ صرف ایک ضرورت مند شخص کیا جان بچای جایگی ،بلکہ اسکے گھر کو ٹوٹنے بھکرنے سے بھی بچایا جا سکے گا.
بلاشبہ یہ آکسیجن فراہمی اسلامی ہدایات کا ہی حصہ ہیں.اور آقایے انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کا صدقہ ہے.
لیجیے باتوں باتوں میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر کے پس منظر میں ایک ایمان افروز واقعہ یاد آگیا.
انیسیویں صدی میں اسی بھارت کے عظیم صوفی و نامور اسلامی اسکالر پایے کے عالم دین اپنے وقت کے محقق و مدقق اور مفکر و معلم بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور مذکورہ بدزبان کے پیش رو آریہ سماج کے بانی مشہور مورتی پوجا مخالف پنڈت دیانندسرسوتی کے دوران ایک مناظرہ Discussion ہوا اور ایک دلچسپ مکالمہ پیش آیا.وہ بروقت حاضر جوابی کا نمونہ بھی ہے اور عقیدت و محبت سے لبریز ایک محادثہ بھی!
مکالمہ سے قبل چند جغرافیائی و موسمیاتی باتوں سے روبرو ہولیں تاکہ مکالمہ سے آپ لطف اندوز ہوسکیں!ساتھ ہی ساتھ یہ ہمارے آپ کی عقیدت کی پختگی اور اس بابت برجستہ گوئی کا سامان بھی ثابت ہو!
پرُوا ہوا؛جس کو ہم اردو داں نسیم صبح سے بھی یاد کرتے ہیں.یہ ظاہر ہے پورب سے پچھم کو چلتی ہے اور تھنڈی ہوتی ہے جبکہ پچھم سے جو ہوا چلتی ہے اسے ہم بہار والے پچھیا ہوا بولتے ہیں وہ گرم ہوتی ہے.اسی کے ساتھ ہندوستان و سعودی عربیہ کا محل وقوع پورب پچھم کے رخ پر ہی ہے.یہ اور بات ہے کہ پورب پچھم سمت کے لیے نہ ہندوستان وعرب ابتدا ہیں نہ انتہا،بلکہ یہ فقط ایک إشارات و علامات ہیں!کیونکہ دنیا گول ہے.بہر حال مکالمہ ملاحظہ فرمائیں!
مکالمہ :Diolouge
مذکورہ پروا ہوا کے متعلق حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کو چھیڑنے اور زچ کرنے کے لیے پنڈت نے کہا کہ دیکھو تو سہی یہ ہمارے ہری دوار - ہندوستان پورب - یعنی بھگوان کے گھر سے چلتی ہے تو دیکھو اس میں کتنی ٹھنڈک ہوتی ہے!
اور پھچم یعنی تمہارے کعبہ سے جو ہوا چلتی ہے، وہ کس قدر گرم ہوتی ہے.اس سے جنت و جہنم کو سمجھ سکتے ہو کہ یہ کس کے ساتھ ہیں؟
بظاہر اس کی گفتگو منطق سے لیس اور متاثر کن تھیں،مگر حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے جواب آں غزل اور جواب ترکی بترکی سے اسے منٹوں میں خاموش کردیا.
انہوں نے فرمایا کہ بات تو سہی ہے کہ پروا ہوا ٹھنڈی اور پچھیا ہوا گرم ہوتی ہے،تاہم ہوا کی حقیقت سمجھو اور کس سمت کیا چلتی ہے اسے دیکھو!
ہمارے نبی کے شہر سے ہوا رحمت والی پھوار بن کر ہی اٹھتی ہے اور چلتی ہے،مگر آتی ہے تمہارے شہر میں جہاں تم جیسے ہو،تو وہ آتے آتے تمہیں دیکھ کر تپ جاتی ہے،اس لیے گرم محسوس ہوتی ہے، جب کہ پورب سے چلنے والی ہوا جب چلتی ہے تو اسے معلوم ہے کہ ہم سمت شہر نبی کو رواں ہیں اس لیے ہوا جو اصلا ٹھنڈی ہوتی وہ مزید ادبا ٹھنڈی ہو جاتی ہے.اور اسے ٹھنڈا ہی رہنا ہے.اتنا سننا تھا کہ فبھت الذی کفر!آگے آییں باییں شاییں!
واضح رہے کہ یہ فقط ایک الزامی جواب تھا اور کچھ نہیں! ورنہ سمت شہر کی حقیقت اور منبع ہوا کیا کچھ ہیں؟ انہیں محققینscholar و حقیقت جو Researchers بہتر جانتے ہیں!
خیر کل جب اسے طالب علمانہ انداز میں پڑھا تھا،تو فقط ایک عقلی و علمی مکالمہ سمجھا تھا،مگر جب آج گستاخانہ زبان اور آکسیجن کی کمی دیکھ ملک نبی و پیروان نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی طرف سے اسی آکسیجن کی فراہمی oxygen supply کا قضیہ سامنے آیا تو اس مکالمہ نے ہمارے ذہن میں برجستہ 'وما ارسلناک الا رحمة للعالمین' کو باعتبار سراپا حقیقت گونجا دیا! اور ایسا محسوس ہوا جیسے "ورفعنا لک ذکرک" کا ہر سو چرچا ہورہا ہے.
صلی اللہ علیہ و سلم!
14/رمضان المبارک 1442
27/04/2021
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں