آکسیجن کی کمی مسئلہ کیا ہے؟ توقیر بدر آزاد القاسمی
نادیدہ_وایرس_معاملہ_کیا_ہے؟
توقیر بدر آزاد
یوں تو ماہ مقدس میں سوشل میڈیا نامی فورم سے تعلق یہ گنہگار براے نام ہی رکھا کرتا ہے.الحمد للہ شب میں تروایح اور دن میں اسکی تیاری اسی کے ساتھ ساتھ مشہور و معروف عربی ارود تفاسیر سے شغل و شغف ہی سب سے مقدم ہوتا ہے.
تاہم ابھی جب بھی سوشل میڈیا سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو ایک خبر متواتر پڑھنے کی ملتی ہے.وہ ہے،اسپتالوں میں ہونے والی موت بلکہ اموات کی خبریں اور اسکی وجہ عالمی وبا اور اسی کے ساتھ آکسیجن کی کمی،بلکہ شدید کمی!
اس ضمن میں ایک سوال کرنا ہے وہ یہ کہ کیا ہم آپ نے کبھی اس کمی کا تعلق اپنے طرز زندگی سے جوڑ کر دیکھا ہے؟
کبھی ہم آپ نے سوچا ہے کہ کل تک انسانی آبادی کم تھی،مگر رب قدیر کا انمول تحفہ پیڑ پودے اور ہریالی ہر جگہ وافر مقدار میں موجود؛ جو صاف ستھری ہواؤں کا منبع اور معاون تنفس یعنی آکسیجن کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے.انکے ساتھ ندی تالاب و جھیل وغیرہ نور علی نور!
مگر افسوس آج جس قدر انسانی آبادی بڑھ رہ ہے،اسی تناسب سے ان معاونِ حیات ربانی تحائف میں بجاے تیزی کے یہ قدرتی انمول تحقے انسانیت دشمن،مادیت پرست ساہوکاروں کے ہاتھوں دفن ہورہے ہیں.عوامی و انفرادی زندگی میں بھی طرز زندگی کا بدلاو قابل دید بنتا جارہا ہے، کل تک جہاں کھڑکی کھول کر تازہ ہوا کا جھونکا لیا کرتے تھے اب وہ چاروں طرف سے بند کمرے میں اے سی کو ناگزیر بنایے بیٹھے ہیں.کل تک اپنے ہاتھوں سے چوپایوں کو پال کر اور کھیت میں اناج اگاکر ہر ممکن پاک صاف اور تازہ و خالص غذا بھرپور انداز میں لیا کرتے تھے اور بھرپور جیتے تھے؛آج یہ سب مشتبہ و مضر ڈبہ بند فاسٹ فوڈ ہوم ڈیلوری کے نام پر دھڑلے سے شوقیہ کررہے ہیں.انہیں دیکھ کر وہ ضرور یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا 'کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا' قدرتی جنگلات کی جگہ موبائل ٹاورز اُگ آیے ہیں اور ندی تالاب جھیل کی جگہ کنکریٹ فرش و شہر اور مارٹ و مالز پاؤں پسار رہے ہیں!جہاں منکسرالقلوب غریب غربا و بندہ خدا کو روزگار دیے جانے کے بجایے آٹو میٹک مشینوں اور بے جان روبوٹس کو انکا بدل بنا کر فکس کیا جارہا ہے!مانو انہیں کبھی زوال ہی نہیں آنا!کسی قیامت سے انہیں دوچار ہی نہیں ہونا!یہ انسانی حساس دل والوں کی آبادی نہیں کسی بے جان لوہے لکڑ اور سنگ و حجر کی مملکت ہے.استغفراللہ!
ظاہر ہے جب ایسا ہوگا تو انسانی جانوں کی قدر ہی کیا ہوگی؟وہ سامان تنفس اور آکسیجن کے لیے تڑپیں تو تڑپیں کسی موبائل ٹاورز کو ان سے کیا غرض؟انسانی آبادی نادیدہ وائرس اور غیرقابو یافتہ وبا سے جھوجھے تو جھو جھے انہیں کسی انسانی چیخ و پکار سے کیا لینا دینا وہ بس آن آف کے پابند ہیں اور بس!چاہے کسی کی جان جایے یا رہے انہیں پرواہ کیا؟یہ نہ تو کسی الہامی کتاب کے مخاطب ہیں اور نہ کسی آسمانی ہدایت کے پابند! لہذا 'ولا تقتلوا انفسکم' ہو یا 'ولا تلقوا بایدکم الی التھلکہ' ایسے پند و وعظ بھی بے اثر رہیں تو رہیں انکا کیا؟
لہذا دوستو!اگر اب بھی انسانی آبادی کو بچانا ہے تو بنا کسی امتیاز و بھید و بھاؤ کے رب قدیر کے عطا کردہ تحفے کی جی جان سے قدر کیجیے!
الہامی کتابوں و آسمانی ہدایتوں کے پابند بنیے!
عبادات کے ساتھ تحقیقات و ایجادات کا ذوق پیدا کیجیے!
'خیرکم من تعلم القرآن و علمہ ' کے ساتھ ساتھ 'خیر الناس من انفعھم للناس' والی ہدایت نبوی کا بھی ہر جا پاس و لحاظ رکھیے!
'خیرامت' بننے کے لیے 'امر بالمعروف' وسیع تناظر میں کیجیے اور اسی وسیع تناظر میں 'نھی عن المنکر' کے فرایض کو بہر صورت انجام دیجیے!ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والی روش کو ترک کیجیے!
پھر دیکھیے کہ آج بھی وہ رب قدیر نادیدہ وائرس اور غیر قابو یافتہ وبا پر ہمیں قابو پانے کی صلاحیت سے نوازنے پر کس طرح قادر ہے جیسے وہ کل تھا.
الغرض ہم آپ اسے قدرت ربانیہ کی فیاضی و عدم فیاضی کا کیس case نہیں،بلکہ اپنی کمی کوتاہی اور کاہلی و نافرمانی اور کاینات کی بناوٹ میں چھیڑ چھاڑ کا کیس caseسمجھیں!
جس دن ہم آپ اس رخ پر سوچنا شروع کردیں گے،اسی دن پھر سے یہ زمانہ ہمارا آپ کا ہوگا اور ہم آپ اس کے بادشاہ ہونگے!
یاد رہے قرانی وعدہ 'وانتم الاعلون ان کنتم مومنین' سے لیکر 'تمکین فی الارض' تک کہیں نا کہیں یہ 'ومن احیاھا فی الارض فکانما احیا الناس جمیعا' سے ہوتا ہوا "واعدوا لھم ماستطعتم من قوہ' تک مربوط ہے. جب تک ان ہدایات کے ہم پابند نہیں بنتے، تب تک حیاتیاتی سے (Biological) لیکر نفسیاتی {psychological} جنگ{war}کا یونہی حصہ نہیں، بلکہ اسکے شکار بنتے رہیں گے!اور گمراہ کن میڈیا کبھی ان امور پر سوچنے لایق آپ کو رہنے نہیں دیگا!
خدا کرے بات سمجھ میں آجایے ویسے بھی موت قریب ہو تو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے.
اللھم وفقنا لما تحب و ترضی!
٧رمضان ١٤٤٢
٢٠/اپریل ٢٠٢١
رابطہ نمبر 919006607678+
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں