حالیہ مباہلہ و چیلنج اور شرعی و قانونی نقطہ نظر: توقیر بدر آزاد

 



السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ امید کہ مفتی صاحب آپ خیر وعافیت سے ہونگے!
دریافت یہ کرنا ہے کہ "مباہلہ" کسے کہتے ہیں؟ کیا مباہلہ یہ فقط نبیوں کی ہی ذمہ داری ہے؟کیا اس میں بددعا کی جگہ باضابطہ عملاً از خود اس کے اسباب اپناکر دکھانا مثلا ہلاک و برباد ہونے کی بددعا کے بجایے آگ میں کود کر جان کی بازی لگانا اور لگاکر دکھانا یہ ضروری ہے؟

آپ واقف ہونگے ابھی ایک قضیہ جو متوقع مباہلہ کے پیش نظر ایک گستاخ و بدزبان اور ایک مفتی ازہری صاحب (واضح رہے کہ یہ طبقہ بریلویہ سے تعلق رکھتے ہیں) کے درمیان رونما ہوا ہے وہ کافی شہرت پارہا ہے.جس میں آگ میں مفتی صاحب نے کودنے اور کون برحق ہے اسے ثابت کرنے کا چیلنج دیا ہے.

جب سے یہ باتیں اردو میڈیا و عوامی گفتگو(بطور خاص واٹس ایپ و فیس بک وال پر) میں موضوع بحث بننے لگی ہیں؛تب سے دو تین باتیں کافی شدت سے پڑھنے سننے کو مل رہی ہیں.
(1)اول یہی کہ بعض کے نزدیک یہ 'چیلنج' کہیں سے 'مباہلہ'نہیں ہے.جبکہ دیگر اسے مباہلہ کے علاوہ کویی اور نام ہی نہیں دیتے(2)دوم بعض کے نزدیک یہ 'مباہلہ' ویسے بھی امتی اور غیر نبی کسی فرد کا کام نہیں ہے،بلکہ اسے تو انبیائے کرام کے ساتھ خاص رکھا گیا ہے.جبکہ دیگر انکے خلاف اسے عام سمجھتے ہیں(3)سوم بہت سے لوگ اسکے کافی شدت سے منتظر آرہے ہیں.تو بعض کے نزدیک آزاد ہندوستان میں یہ اپنی نوعیت کا اکلوتا چیلنج یا مباہلہ ویسے بھی برپا نہیں ہوسکتا.

اس کے علاوہ دیوبندی و بریلوی مسلک کا رونا الگ رویا جارہا ہے، کہ پہلے بریلوی کے علما بیچارے دیوبندی حضرات کو صاحب ایمان تو تسلیم کرلیں اور دیوبندی بھائی بریلوی ی کو غیر بدعتی و غیر مشرک تو جان لیں پھر ایک دوسرے کے حق میں دعا اور اپیل عام کریں!

راقم آپ سے توقع کرتا ہے کہ ان میں کن کی باتیں درست ہیں یہ آپ قرآن و سنت اور ملکی آیین کی روشنی میں واضح کرنے کی زحمت کریں گے.

آپ کا خیر اندیش ایک دینی بھائی سلمان دانش بھوپال
_______________________________
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! رب کریم کا بے پایاں کرم و احسان ہے.
آپ نے مباہلہ کی حقیقت دریافت کی ہے.تو یاد رکھیے کہ یہ مباہلہ ایک عربی لفظ ہے. مجرد سے 'بھل یبھل بھلا' کا ایک معنی لعنت کرنا ہے. اور مزید فیہ سے 'ابتھل' جب بولا جاتا ہے تو اس میں إلحاح و زاری کے معنی جڑ جاتے ہیں.البتہ حسی طور پر خود کو آگ کے حوالے کرنا یا کسی اونچی جگہ سے گرانا وغیرہ اس میں دور دور تک شامل نہیں ہے. قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر ٦١ میں "ثم نبتھل"ہی آیا ہے.عوام میں مشہور مباہلہ یہ مفاعلہ کے وزن پر ہے.اس کا مطلب اظہار حق کے لئے ہر دو فریق ایک دوسرے کو عناد کی وجہ سے عتاب خداوندی و عذاب الہی سے دوچار ہونے کیلیے رب کریم کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں.
جب حق واضح ہونے کے بعد بھی کویی ضد و عناد سے کام لیتا ہے اور کٹ حجتی کرتا ہے تو ایسے وقت 'مباہلہ' حق کے ظہور کا ذریعہ بنتا ہے.

علمایے محققین کے نزدیک یہ فقط انبیائے کرام کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ یہ امتی اور عام فرد بھی اظہار حق کے لیے باطل پرستوں کے ساتھ کر سکتا ہے.یہ محققین اس کی دلیل سورہ نور کی آیات نمبر ٦ سے لیکر ١٠ تک میں پاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جس طرح سے حد قذف و حدزنا سے بچنے کے لئے زوجین کے درمیان 'لعان' کا راستہ قرآن نے اختیار کرنے کہا ہے.اس سے کشمکش حق و باطل کے وقت مباہلے کی گنجائش بھی عام فرد کے لیے نکلتی ہے.

مباہلے کے سلسلے میں قرآن کریم کی متعلقہ آیت کا مزید دھیان سے مطالعہ کیجیے تو آل عمران کی آیت میں "فقل تعالوا ندع" سے محسوس ہوگا کہ اس میں 'دعا' سے کام لیا جاتا ہے.نہ کہ آگ وغیرہ میں کودنے اور جان کو حسی طور سے جوکھم میں ڈالا جاتا ہے.جس سے خود کشی کا شبہ پیدا ہو اور قرآنی ہدایت "ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکة" سورہ بقرہ آیت نمبر ١٩٥ کی کھلی خلاف ورزی کی نوبت آیے.

اسی کے ساتھ ساتھ آگے "ثم نبتھل" سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس میں تاخیر سے کام لیا جایے پہلے دلائل وغیرہ سے ہی اپنی بات واضح کی جایے.جلدبازی سے گریز کیا جائے.قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری کے اندر متعلقہ آیت کی تفسیر میں یہی باتیں لکھی ہیں.

تفسیر ابن کثیر نے جو نقل کیا ہے اس میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے عیسائیوں کے عقیدے کی بالدليل تردید کی اور انہیں اپنے ماتحت جزیہ ادا کرکے رہنے کا موقع فراہم کیا تو بجایے اسکے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے الٹے وہ لوگ مزید کٹ حجتی پر اڑ گیے اور ایک وفد بنی نجران مباحثے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مباہلے کا چیلنج دیا.کہ میدان میں آجاو اور دعا کرو جو حق پر ہوگا بإذن اللہ وہ رہیگا اور جو باطل ہوگا وہ مٹ جایگا.مسلم شریف کتاب فضائل الصحابہ میں ہے کہ اس غرض سے آپ صلعم نے اپنے ساتھ حضرت علی، حس حسین نواسے و صاحبزادی فاطمہ - رضی اللہ عنہم-یعنی گھر کے افراد کو اکٹھا بھی کیا، تاہم عیسائی وفد حقیقت جانتے تھے.اس لیے انہوں نے سرینڈر کرنا مناسب سمجھا اور جزیہ ادا کرکے صلح کی درخواست لگایی.دیکھیے{تفسیر ابن کثیر متعلقہ آیت}
بخاری شریف کتاب المغازی میں دیکھ لیجیے اس میں بھی صاف صاف عیسائیوں کی طرف سے عاقب اور سید نامی جو دو صاحب آیے تھے ان کا منشا بھی یہی 'زبانی بد دعا' تھی روایت میں "یریدان ان یلاعناہ" کے الفاظ دیکھ سکتے ہیں.اور مباہلہ کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں.

الغرض ان تفصیلات سے عملا جو بات سامنے آتی ہے،وہ یہی کہ مباہلے میں زبانی گڑگڑا کر دعا کے سہارے اپنا معاملہ خدا کے سپرد کرنا ہوتا ہے،نہ کہ جنگ و جہاد کے سپاہ کی طرح مقابل کو زک دینے کے لیے آگ پانی سے کھیلنا اور حسی طور پر از خود جان کی بازی لگانا!

اس لیے قرآن و سیرت کی روشنی میں راقم یہی کہہ سکتا ہے کہ جس مباہلے کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے،ایسے کسی مباہلے کی بحیثیت 'مباہلہ' کوئی گنجایش نظر نہیں آتی ہے؛کہ جس میں از خود جان کو جوکھم میں ڈالا جایے.ہاں اس سے الگ اسے دیگر 'چیلنج' کہا جانا ممکن ہو تو ہو!بہرحال اسے قرآنی 'مباہلہ' کہنا یہ محل غور ہے.

البتہ جس گستاخ کی آپ نے بات کی ہے،بلاشبہ اس حوالے سے یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں دستوری لحاظ سے ہر وہ عمل جو آپسی بھائی چارے اور نقض امن کا سبب بنے وہ جرم ہے،وہاں اس جرم کا کھلے عام ارتکاب اور لعنتی کا اس طرح بکواس یہ کسی بھی طرح آیینی صحت و ملکی سالمیت کے لیے خوش آیند نہیں.
لعنتی اگر واقعی پنڈٹ ہے،تو اسے اپنے ویدوں کا مطالعہ کرنا چاہیے.کیا اسکے وید میں "انتم مہرشی اور انتم سندیشٹھا '' کا تذکرہ نہیں ہے؟کاش وہ لعنتی اس حقیقت کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ قبول کرتا!

اسی کے ساتھ جن مفتی صاحب کا آپ نے تذکرہ کیا ہے-رب کریم انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور لعنتی لعین سے دھرتی کو پاک کرے آمین-ممکن ہے کہ ان اپنا ذوق و وجدان یہی ہو کہ آگ میں کود کر ہی اظہار حق کیا جایے.بہرحال یہ انکا اپنا ذاتی فعل ہوگا.اس کا قرآن و سیرت میں ذکر کردہ مباہلے سے کچھ لینا دینا نہیں!

جہاں تک آزاد ہندوستان میں ایسے کسی چیلنج کو بروئے کار لانے کی بات ہے تو ماہرین اور آیین یہی بتاتے ہیں کہ جہاں دستور میں بنیادی حقوق کے طور پر آرٹیکل 19 کے تحت آپ عوام کو پر امن طریقے سے 'احتجاج' کا حق ہے،وہیں کسی گڑبڑی کو دیکھ کر سرکار کو اسے 'روکنے' کا بھی اختیار ہے.
اسی کے ساتھ ساتھ IPC 309دفعہ تعزیرات ہند 309 کے تحت خود کشی کی کوشش کرنا یا کسی کو خود کشی پر اکسانا یہ وہ جرم ہے،جس میں جیل کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ہوسکتا ہے.
آپ یہاں بھی بنیادی دستوری حقوق سے لیکر دفعہ تعزیرات ہند تک دیکھ سکتے ہیں کہ مذکورہ چیلنج قانون و آیین کی روشنی میں ناقابل عمل معلوم ہوتا ہے.اس لیے جو احباب ایسا کہہ رہے ہیں میرے خیال سے وہ درست ہے.مبادا خدا نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو جس سے ہمیں زک پہونچے!
جہاں تک دیوبندی بریلوی طبقے کی بات ہے تو راقم کا احساس یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی فرقہ فرقہ کھیلنا یہ غیر سے زیادہ خود کے ہاتھوں اسلام کو نقصان پہنچانا ہے.اسی کے ساتھ راقم یہ بھی عرض کرنا چاہے گا کہ آخر آج علی الاعلان مطلق ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل کرکے ہم کیا کچھ پارہے ہیں اور کیا کچھ کھو رہے ہیں؟کیا یہ سوال اب بھی دونوں طبقے کے درمیان سنجیدگی کے ساتھ حل طلب نہیں؟

دعا کریں رب کریم ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے آمین!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
٤رمضان المبارک ١٤٤٢
موافق 17 اپریل 2021
+919006607678
+919122381549
mtbadr12@gmail.com

تبصرے

  1. ماشاء ﷲ مفتی صاحب بہت عمدہ تحریر ہے عفل و نقل کی روشنی میں ایک دم واضح اور دو ٹوک بات۔جزاک ﷲ خیرا

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں