کیا کلمہ توحید سے ہندو مسلم یکتا بھنگ ہوتا ہے؟

 


مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ امید کہ آپ خیر وعافیت سے ہونگے!

ہمارے ایک غیر مسلم دوست ہیں.کافی سنجیدہ مزاج ہیں وہ آج کل مسلمانوں اور ہندو ایکتا پر باتیں کرتے رہتے ہیں.ہم دونوں پیشے سے انجینئر ہیں.ایک مرتبہ انہوں نے ہم سے کہا کہ دیکھو اب سمجھ آیا کہ پرابلم کیا ہے.مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے درمیان اتحاد {unity} اور ایکتا ناممکن نہیں ہے،کیونکہ تم مسلمانوں کا رویہ اور کلمہ یہ ایک مسئلہ problem بنا ہوا ہے.میں نے اسکی تفصیل جاننا چاہی تو اس نے کہا تم جب ایک رب اور خدا کو مانتے ہو اسکی بات کرتے ہو تو ساتھ میں ہمارے سبھی دیوتا کی نفی کرنے لگتے ہو.جبکہ تمہیں اپنے رب تک رہنا تھا.عقل و دستور بھی یہی کہتا ہے.یہ اکیسویں صدی ہے.کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اس پر سوچ وچار کرنا چاہیے.

مفتی صاحب آپ بتائیں کہ ان سے کیسے گفتگو کی جایے اور انکو مطمئن کیسے کیا جایے؟امید کہ فرصت سے تسلی بخش جواب لکھنے کی زحمت کریں گے! جزاکم اللہ خیرا وأحسن الجزاء!

آپ کا دینی بھائی ایم رفیق(انجینئر) آندھرا انڈیا

======================

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ!رب کریم کا بے پایاں کرم و احسان ہے. آپ نے اپنے دوست کے حوالے سے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے.وہ اب روز افزوں ہیں.گول مول باتوں اور مبہم نعروں کے بطن سے ایسے سوالات روز پیدا ہورہے ہیں.نام نہاد قومی میڈیا ہاؤسز اپنے ٹاک شوز میں اسے اچھالنے میں مصروف کار ہیں.اسی کے ساتھ ساتھ المیہ یہ ہے،کہ ایسے بیجا سوالات ہماری نسل نو کے لئے لیے فکری ارتداد اور غیروں کے لیے دوری و منافرت کا سبب بنتے جارہے ہیں!


میرے خیال سے آپ کے دوست نے اپنے طور سے نام نہاد اتحاد و یکتا{so called unity} کو خلق کیا اور پھر بنا غور و فکر کیے خود کی چالاکی یا کسی دوسرے چالاک کے بہکاوے میں آکر کلمہ توحید کو نشانے پر رکھ لیا اور آپ کو الجھانے کی کوشش کی.

ورنہ آپ خود سوچیے کہ آخر ایسا کون سا پسندیدہ ایکتا اور مقبول اتحاد ہوگا،جو ایک انسان سے اس کا اپنا تشخص اسکا ایمان اور اسکی پہچان کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھانے کہے؟ایکتا و اتحاد میں تو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہوئے میل ملاپ اور انسانی ناطے ایک دوسرے کے کام آیا جاتا ہے. 

کیا اسے نظر نہیں آتا کہ کلمہ توحید خود یکتائی کا سر چشمہ ہے.جو اسے پڑھتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے، وہ سبھی رنگ، نسل، علاقے حتی کہ مزاج و عادات سے بھی اوپر اٹھ کر ایک ایمانی دھاگے کا یکساں موتی بن جاتا ہے.کیا اس سے بڑا اتحاد بھی اس دھرتی پر کسی کو نظر آسکتا ہے؟

جہاں تک رویے کی بات ہے،تو دھیان رہے کہ ایک حقیقی کلمہ گو میں اسی کلمہ کی برکت سے ہر انسان کو فقط انسانیت کے پیش نظر اسکی اچھائی پر اسے ابھارنے کا تقاضا پیدا ہوتا ہے،اس اچھائی کی طرف اسے بلانے اور ہر برائی سے اسے ہر ممکن بچانے کا اس کلمہ گو میں ایک داعیہ جنم لیتا ہے.وہ ایسا کرتے ہوئے اس انسان کو اپنا انسانی بھائی سمجھتا ہے،جس کے سامنے سارے کھوکھلے اتحاد بونے نظر آتے ہیں،جب کہ اس کلمہ کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ انسان کو فقط تباہی پر آمادہ کرتا ہے.ایک انسان کو اسکے فرضی و مصنوعی ضروریات اور تقابل دکھا کر اسے اپنے جیسے دوسرے انسان کا دشمن بناتا ہے.

عملا آقا و غلام کے خانے میں نہ فقط بانٹتا ہے،بلکہ اس پر راضی رہنے کے لیے فلسفے گڑھتا ہے.جس سے تفریق در تفریق کا عفریت سرپٹ دوڑنے لگتا ہے.لہذا یہاں سوال 'کلمہ توحید' پر نہیں،بلکہ اسکے اس فرضی و جعلی یکتا و اتحاد پر ہونا چاہیے! 


آپ خود سوچیے ہم آپ کلمہ گو ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ہمارے عقیدہ توحید کی اساس و بنیاد{root} اسی کلمہ توحید 'لا الہ الا اللہ' پر ہے.ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ توحید{onness}کا جب بھی ذکر ہوگا تو نفی غیر کے ساتھ ہی ہوگا.یہی ایک فطری{natural}اور حقیقی{real}بات ہے اور کیوں نا ہو؟یہی بات تو ہمارے برداران وطن کی دھارمک پشتک رگ وید میں بھی ہے.کیا ان کا 'برہم سوتر' ہمارے عقیدہ توحید کی تایید نہیں کرتا؟رگ وید مہارشی وید و یاس جی میں دیکھیے اور اپنے دوست کو بھی سناییے!ہم یہاں شلوک نقل کرتے ہیں. 

’’ایکم برہم دو یتا نا ستح،نیتہنا ناستح کنچن‘‘ برہم سوتر(رگ وید جلد ۸ شلوک ۱)

(ترجمہ:ایک ہی ایشور ہے.جس کی عبادت اور پرستش کی جائے،جو ایک الہ ہے مالک ہے.اس کے سوا کوئی پوجا کے عبادت کے لائق نہیں ہے،نہیں ہے،قطعی نہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے.)


ذرا اسکے اسلوب کو دیکھیے کلمات نفی پر غور کیجیے!کیا اس کے باوجود بھی کلمہ توحید سے کسی کو پرابلم{problem}ہوسکتا ہے؟اس سوال کو دوبارہ اپنے دوست کے سامنے رکھیے! 


مزید تسلی و اطمینان کے لیے فقط بطور تمثیل ذیل میں چند سوالات و مثالیں پیش کی جاتی ہیں!

آپ غور کیجیے اور اپنے غیر مسلم دوست سے بھی کہیے کہ دھیان دے اور دیکھے کہ کیا ایسا نہیں ہوتا،ایک انسان جب اپنی شہریت {citizenship} اپنی پسندیدہ سرزمین سے ثابت کرتا ہے،تو اسے سب سے محبوب جانتا ہے.اور ایسا جاننے میں وہ اور ملکوں {countries} کی نفی نہیں کرتا؟تو کیا ایسا کرنے سے اسے انسانی اتحاد اور یکتائی کا دشمن مانا جایگا؟

کیا ایک بچہ اپنے والدین کو سب سے بہتر نہیں کہتا؟جس سے خود بخود دوسرے کم تر ثابت ہوجاتے ہیں!

کیا ایک طالب-علم اپنے اسکول کو سب سے عمدہ و اعلیٰ نہیں بتلاتا؟جس سے دوسرے اسکول اپنے آپ اس کی نگاہ میں ادنی ثابت ہوجاتے ہیں!ایک عاشق اپنے محبوب کو ایک شوہر اپنی بیوی کو سب سے خوبصورت اور اسکے سامنے بقیہ سبھی کو ہیچ نہیں کہتا اور وہ ایسا نہیں مانتا؟تو یہ کیا یہ سب اتحاد کے دشمن ہیں؟

آخر ان باتوں پر بھی آپ کے دوست سوال اٹھاتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں،تو سوال ہے کہ وہ ان باتوں پر سوال کیوں نہیں اٹھاتے؟

کمال ہے ان پس منظر میں تو وہ دھڑلے سے اظہار خیال اور اظہار رایے کی آزادی {freedom of expression} کا ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں.تو کیا ایک صاحب ایمان ہی اتنا گیا گزرا ٹھہرا کہ وہ اپنی اظہار رایے میں آزاد نہیں،بلکہ پابند رہے؟ غضب کی منطق {logic} ہے. ان سے کہیے کہ آپ پہلے ان انسانی باتوں و احساسات سے نمٹ لیں پھر آگے الہامی باتوں پر دھیان دیں! 


یاد رہے یہ سب عوامی احساسات ہیں.یہ نسبی اضافی {relative} ہوسکتے ہیں.سو جب یہاں یہ انداز گفتگو قابل قبول ہیں،وہ قابل اعتراض نہیں،تو پھر جو کلمات و احساسات ہمارے دین و ایمان کی بنیاد اور انکی پہچان ہے.جو ایک اٹل {unchangeable} اور مطلق {absolute} ہیں؛اسے گوارا نہ کرنا اور اس پر اعتراض کرنا یہ کون سی منطق ہے اور کیسا انصاف ہے؟ 


امید کہ ان سطور سے آپ کی تسلی کا کچھ سامان ہوگیا ہوگا. آپ دیگر ماہرین و اہل علم سے بھی رجوع ہوکر اس کی مزید تسلی و تشفی کرلیں اور راقم کو دعاؤں میں یاد رکھیں! 


آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا سابق استاذ افتا وقضا المعھد العالی للتدريب فی القضاء و الإفتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار انڈیا

١٢/اپریل /٢٠٢١

919006607678 +رابط نمبر 

919122381549+ واٹس ایپ نمبر

mtbadr12@gmail.com



تبصرے