شب برات چند قابل غور سوالات و جوابات:توقیر بدر آزاد القاسمی

 

شب برات سے متعلق چند قابل غور سوالات!


مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
بڑے دنوں بعد آپ سے رابطہ کر رہا ہوں. مزاج گرامی کیسے ہیں.سب سے پہلے تو آپ کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ پندرھویں شعبان کی شب یعنی شب برات کی آمد آمد ہے.اگر اس کے متعلق کویی مذاقا و سوالا یہ کہے کہ یہ رات مسلمانوں کے لیے ایک تگڑا آفر ہے.کچھ بھی کرلو ایک رات میں سارا پاپ دھل جاتا ہے؟کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس سے انسان جری نہیں ہوسکتا؟تو اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

اسکے بعد اسی سلسلے میں عرض ہے کہ آج ہر مسلمان اتنا تو جانتا ہے کہ بے مقصد اس رات کو جاگنا،صبح فجر کی نماز ترک کرنا،مجلسیں جمانا اور بایک نچانا،آتش بازی کرنا یہ سب کچھ واہیات اور سراسر غیر اسلامی و غیر انسانی کام ہے.البتہ اسی کے ضمن میں بعض حضرات کی طرف سے پندرہ تاریخ شعبان کے روزے کا انکار،اس رات کی عبادت کا انکار اور ساتھ ساتھ اسے عام بدعت قراردینا یہ کہاں تک درست ہے؟
ایک علمی جواب طلب بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ عبادت کرتے ہیں ان کا مسجد میں جمع ہونا، جماعت اور صلاہ التسبیح کا اہتمام و اعلان کرنا، مخصوص نماز اور مخصوص سورہ کی تلاوت کرنا،قبرستان التزاما جانا ان سب کی شرعی کیا نوعیت ہے؟گھر کی عورتوں میں حلوہ کا پکایا جانا اور بعض واعظین کا اسے دندان مبارک کی شہادت کے موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پسند قرار دینا یہ کہاں تک درست ہے؟
امید کہ آپ ہر ایک سوال کا پوری وضاحت سے جواب دیں گے.رب کریم آپ کو سلامت رکھے آمین!
آپ کا دینی بھای اسحاق قاسمی دہلی انڈیا/ایم سراج تلنگانہ /عبدالمجيد بنگال
=================
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! رب کریم کا بے پایاں کرم و احسان ہے.
آپ نے شب برات کے متعلق جو کچھ لکھا ہے.بلاشبہ یہ سارے امور قابل توجہ اور لایق غور و خوض ہیں.رب کریم ہم سب کو فضولیات سے محفوظ رکھے اور حقیقی عبادت کی فضیلت و عظمت سے سرفراز کرے آمین!
پہلی بات جو مذاقا یا سوالا "تگڑا آفر" کی ہے.اس حوالے سے راقم کا یہی کہنا ہے کہ سایل نے غالباً اپنے جیسا یا کسی کمپنی کی طرح خالق کائنات کو سمجھ بیٹھا ہے؛کہ یا تو رب العالمین انسان کی طرح پابند قانون ہے کہ جس طرح ایک انسان قانون س پرے ادھر ادھر نہیں کرسکتا،پل بھر میں کسی کے سارے گناہ معاف نہیں کرسکتا،یہی معاملہ خالق کائنات کا بھی ہے. یا پھر شاید انکو اپنی رحمت سیل sell کرنی ہے،اسی لیے وہ آفر offer دے رہے ہیں!ظاہر ہے ایسا ماننا تو دور سوچنا بھی بری حماقت ہے.کاش سایل اپنے ملک کے قانون کے مطابق ملک کے فرد اول first person یعنی صدر جمہوریہ کے اختیارات پر ہی غور کر لیتا!کیا اسے نہیں معلوم کہ صدر جمہوریہ اپنے خصوصی اختیارات کے بل بوتے ایک ایسے قاتل کو بھی آیندہ کی زندگی بہتر گزارنے کے وعدے پر ایک دستخط سے معافی دے دیتا ہے،جسے کورٹ نے اسکی بھیانک غلطیوں اور جرایم کی بنا پر کھلم کھلا پھانسی کا آرڈر دے رکھا ہوتا ہے.انسان تو انسان ایک موبائل لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں ہم کسی آبجیکٹ یا فائلز کو آل سلیکٹ کرکے ڈیلیٹ آپشن دباتے ہیں تو سب کا سب مٹ جاتا (Erase) ہے.
اب سوچیے جب ایک مشین اور انسان ایسا کرسکتا ہے تو کیا رب العالمین و احکم الحاکمین صدق دل سے توبہ کرنے والے اپنے بندے کو مخصوص راتوں میں معاف نہیں کرسکتے؟اسکے گناہوں کو نہیں دھو سکتے؟جبکہ صدر جمہوریہ خود پابند قانون اور معافی کے خواستگار مجرم کی آیندہ کی زندگی کے حوالے سے مطلق لاعلم ہوتا ہے.حالانکہ ایسا کچھ رب کائنات کی شان میں تو تصور نہیں کیا جاسکتا! کیونکہ 'فعال لمایرید' اور 'لایسئل عما یفعل' انکی شان ہے اور علام الغیوب ہونا انکی پہچان!
اس لیے اس معافی کو اس تناظر میں توبہ اور شان کریمی کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کریں اور سائل کو سمجھائیں!انسان کی کمزوری و غفلت اور شیطان کی چالبازی و شرارت پر رب کریم کا اپنے بندوں پر ستر ماووں سے زیادہ توجہ و عنایات کو ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے.سائل کو بھی چاہیے کہ وہ توبہ اور توفیق ربانی کی حقیقت اور اسکے فلسفے کو سمجھے اور مطالعہ کرے. اسے پتا چلے گا یہ اسلام کی خوبی ہے اسکی خامی ہرگز نہیں!
جہاں تک جری ہونے کی بات ہے،تو میں یہ سمجھتا ہوں جو گنہگار بندہ خدا کے حضور صدق دل سے توبہ کرتا ہے؛اسے رب کریم آیندہ نیک بننے کی توفیق دے دیتا ہے.لہذا اس پس منظر میں جری ہونے کی بات کرنا گویا باتوں کو توڑ مروڑ کر اپنی خام منطق میں متضاد بنا کر پیش کرنا ہے.اس سے اس شب کی فضیلت اور معافی کے بعد نیک بننے کا کویی تعلق نہیں!

اس کے بعد واضح رہے کہ شب برات یعنی پندرھویں شعبان کی شب یہ اسلامی تاریخ و شریعت میں ایک حقیقت سے عبارت ہے.آپ بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں.
اس شب کی فضیلت اور اس میں عبادت کی اہمیت کا کیا درجہ ہے وہ راقم کے مطالعے کے مطابق بظاہر اہل علم کے درمیان مختلف فیہ نظر آتا ہے.دراصل اس شب کی فضیلت اور عبادت کی اہمیت کے متعلق مدار وارد وہ احادیث ہیں؛جن پر بعض اہل علم نے ضعف کا حکم لگایا ہے اور انہیں لایق احتجاج نہیں جانا.جبکہ بعض دیگر اہل فن نے ان پر 'ضعف یسیر' کا حکم لگاتے ہوئے مزید طرق و شواہد کی روشنی میں ان احادیث کو حسن لغیرہ کا درجہ دیا ہے اور لایق عمل و قابل احتجاج تسلیم کیا ہے.

چناچہ اسی اصولی اختلاف کے پیش نظر بعض اہل علم حضرات جہاں اس شب کی اپنی فضیلت اور اسکی عبادت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں،وہیں بعض اہل علم اس کا انکار بھی کرتے،بلکہ بقول آپ کے 'بد عت' تک گردانتے ہیں،تاہم تحقیق و جستجو کے بعد اصول و قواعد کی روشنی میں اہمیت تسلیم کرنے والے حضرات کی بات باوزن محسوس ہوتی ہے،کیونکہ اس رات کو 'باعظمت'بتانے والی متعدد حدیثیں ہیں اور وہ مختلف صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم (مثلاً: ابوبکر صدیق، علی بن ابی طالب، معاذ بن جبل، ابوموسیٰ اشعری، عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابو ثعلبہ خشنی،عثمان بن ابی العاص اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم)سے مختلف سندوں سے روایت کی گئی ہیں.انہی طرق متعددہ کی وجہ سے ماہرین اسے حسن لغیرہ کا درجہ دیتے ہیں.اور بعض روایات میں در آیا ضعف ان شواہد کی وجہ سے اصولا فضائل کے باب میں ناقابل التفات رہ جاتا ہے.راقم نے اسی لیے اسے 'ضعف یسیر' کے نام سے موسوم کیا ہے.

حاصل کلام اس رات کی فضیلت مسلم ہے اور عبادت و دیگر نیکیاں بڑی اہمیت کی حامل ہیں.اسی کے ساتھ جنہوں نے اس شب کی فضیلت اور عبادت کو تسلیم کیا ہے.انہوں نے ہی پندرھویں تاریخ کو ایام بیض کے مطابق ہی سہی روزہ رکھنا بھی مستحب و پسندیدہ عمل قرار دیا ہے.
دلائل کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں{دلیل الفالحین:1/23}{تعلیق مسند احمدتحقیق شعیب ارناووط 6642}{مجمع الزوائد 6921}{المعجم الکبیر 203}{الفتح الکبیر 1319}{کنزالعمال 35184}{مسند بزار2754}{مصنف عبدالرزاق کتاب الصوم}{الفتاویٰ الفقھیہ الکبریٰ:کتاب الصوم}{السلسلة الصحیحۃ للالبانی 3/153}{فتاوی الازہر مفتی عطیہ صقر 10/131}

اب رہ گیا آپ کا وہ دوسرا سوال جسے آپ نے علمی جواب طلب بات کہ کر پیش کیا ہے.تو ان کی بابت یہ عرض ہے کہ جن احادیث کے مطابق اس رات کو جاگ کر عبادت کرنا اور اللہ کے حضور سراپا عجز و نیاز بننا ہے.اس کے لیے ان احادیث میں نہ تو مساجد میں آنے اور جمع ہونے کا ذکر ہے اور نہ ان میں جماعت کے ساتھ مخصوص نماز اور مخصوص سورہ کی تلاوت کا کویی اشارہ ہے.اصولی طور پر بھی نفل عبادات اور إلحاح و زاری اخفا و پوشیدگی کی متقاضی ہوتی ہیں.
اس لیے فقہا عظام نے لکھا ہے کہ رمضان میں تراویح کے علاوہ دیگر راتوں میں نوافل کے لیے مسجد کے اندر اجتماع ،اہتمام یا اعلان یہ ناپسندیدہ ہے.آپ علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ کی یہ عبارت دیکھ سکتے ہیں {"یکرہ الاجتماع علی احیاء لیلة من ھذہ اللیالی فی المساجد"البحرالرائق 2/56}آگے اسی صفحے پر وہ گھروں میں"تصلی فرادی" فردا فردا ان نوافل کو ادا کرنے کہتے ہیں.مخصوص نماز و سورہ کی تلاوت کی رد میں دیکھیے{المجموع 4/55}{الفوائد المجموعة 51}

اسی طرح اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت میں قبرستان جانے کی بات بھی اتفاقی معلوم ہوتی ہے،کیونکہ دیگر احادیث کے علاوہ مابعد صحابہ کرام کی زندگی میں ایسا کویی اہتمام و التزام دیکھنے کو نہیں ملتا ہے.

اسی کے ساتھ حلوہ مانڈہ کی جہاں تک بات ہے،تو آپ واقف ہیں کہ اہل سیر بتاتے ہیں کہ دندان مبارک کی شہادت کا واقعہ غزوہ احد میں پیش آیا اور یہ ماہ شوال میں رونما ہوا ہے،جبکہ مذکورہ ڈش شعبان میں تیار کی جاتی ہے.اب بتایے اس میں کیا تک ہے؟لہذا یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں.ان کی کوی اصل نہیں ہے.
امید کہ آپ حضرات کے جو سوالات تھے انکے جوابات کسی حد تک مل گیے ہونگے. دیگر اہل علم سے بھی رابطہ کرکے تشفی کر سکتے ہیں.جزاکم اللہ خیرا
دعاؤں میں یاد رکھیں!

نوٹ:شب برات سے متعلق اہم ویڈیو لنک بھی منسلک ہے. 


آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
mtbadr12@gmail.com
+919122381549
+919006607678

تبصرے