قرآنی آیات¦پی آیی ایل¦قانونی و معروضی مطالعہ:توقیر بدر آزاد القاسمی


 

قرآن مقدس،مفاد عامہ والی عرضی(PIL) اور قانونی پہلو:ایک معروضی مطالعہ!
توقیر بدر القاسمی*

حالیہ دنوں میں ملک عزیز کے اندر عدالت عظمیٰ میں دائر ایک عرضی نے کافی 'سستی شہرت' بٹوری ہے.ویسے وہ شہرت بٹورے بھی تو کیوں نا کیونکہ وہ ایک لازوال لافانی،لاثانی آفاقی،کتاب مقدس دستور معظم،منبع قانون و مصدر اخلاق سے متعلق عرضی جو ٹھہری!

آییے اس عرضی کی قانونی و آیینی حیثیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں!

عرضی برایے مفاد عامہ!
(پی آئی ایل) یہ Public Interest Litigation (پبلک انٹرسٹ لیٹیگیشن) کا مخفف ہے.اردو میں اسے 'عرضی برایے مفاد عامہ' اور ہندی میں 'جن ہت یاچِکا' کہا جاتا ہے.یہ عام محروم انسان،طبقات اور پچھڑی اقلیت کے آیین میں درج حقوق کی بازیابی کے لیے کسی بھی فرد جماعت یا غیر سرکاری تنظیم و ادارے کی طرف سے ایک قانونی کوشش و اقدام ہوتا ہے،جسے عدالت کی توجہ سے نتیجہ خیز اور بار آور بنایا جاتا ہے.
دیگر ملکوں کی طرح وطن عزیز ہندوستان میں بھی عدالت عالیہ کے رو برو ہوکر براہ عرضی یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے.نچلی عدالت میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی ہے.اس کے لیے آیین میں فراہم کیے گیے دفعات 226 کے تحت عدالت عالیہ (High court) اور آرٹیکل 32 کے تحت عدالت عظمیٰ(Supreme Court) میں ہی درخواست و عرضی دینی ہوتی ہے.
رٹ پٹیشن اور عرضی براے مفاد عامہ میں فرق!
یہاں یہ دھیان میں رہے کہ یہ پی آئی ایل عوام کے مفاد سے جڑا ہوا ہوتا ہے اور ہونا چاہیے،بصورت دیگر وہ خارج کردیا جاتا ہے،چناچہ اگر کسی کو براہ عدالت اپنی ذاتی پریشانی کا ازالہ کرانا ہو یا نجی حق کی بازیابی کے لیے عرضی دینی ہو تو اسے پی آیی ایل(پبلک انٹرسٹ لیٹیگیشن)نہیں کہتے،بلکہ اسے writt petition رٹ پٹیشن کہاجاتا ہے.اور اسے یہی دایر کرنا ہوتا ہے.

یہ پی آیی ایل کون دائر کر سکتا ہے؟
جیسا کہ بتایا گیا اس عرضی کو کویی بھی صاف ستھری شبیہ والا ایک ہندوستانی جو سنجیدہ نمایندہ فرد یا جماعت ہو وہ 'عوامی مفاد' میں عدالت عالیہ یا عظمیٰ میں پوری سنجیدگی و تیاری کے ساتھ دائر کرسکتا ہے.
واضح رہے اس کا بسا اوقات غلط استعمال بھی ہوتا رہا ہے، میڈیا میں سستی شہرت حاصل کرنے کی غرض سے غیر سنجیدہ قسم کے لوگ عدالت اور عوام دونوں کا وقت برباد کرتے ہیں.چناچہ معزز فاضل ججوں نے اس پر اپنے خدشات بھی ظاہر کیے ہیں.

ان سبھی پہلوؤں پر نگاہ ڈالنے کے بعد یہاں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مقدس کے حوالے سے پی آیی ایل کیا ہے؟آیا قرآن ہندوستانی آیین یا آیین میں درج حقوق کا مجموعہ ہے؟دائر کرنے والا کون ہے؟اس کی کیا حیثیت ہے؟اور اس کا حشر کیا ہونا چاہیے؟

مذکورہ تفصیلات کے بعد سب سے پہلی اور بنیادی بات یہاں قانونی پہلو سے یہ سوال ہے کہ کیا قرآن مقدس یہ ہندوستانی آیین یا انسانی کاوش ہے،کہ اس میں کسی انسان کی حق تلفی کی بات در آیی اور اس کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کرانے کیلیے پی آیی ایل داخل کرنا پڑا؟
ظاہر سی بات ہے ہر پڑھا لکھا انسان یہی کہیگا کہ وہ ایک آفاقی لازوال لاثانی الہامی کتاب ہے،کسی خاص ملک کا آیینی و دستوری کتاب نہیں بلکہ اسے کسی ملک میں محدود جاننا جہالت اور انسانی کوشش جان کر اس کو آنکنا پرلے درجے کی حماقت ہے.
چناچہ اس بنیاد پر اس پی آیی ایل کا حشر کیا ہونا چاہیے،اس کو کلکتہ ہائی کورٹ میں دایر سن 1985 کے اس دایر عرضی سے سمجھ سکتے ہیں،جس کو جج نے یہ کہتے ہویے رد کردیا تھا کہ سیکولر مزاج کے خلاف ہے کہ کسی الہامی کتاب کو اس کے مطابق جانچا جایے!
اگر بات اس مقدس کتاب کی آیات اور اس پر بحث کی آیی بھی تو کیا، یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ جب قرآن کا نزول عرب کی سر زمین پر ہوا تھا تو اس وقت کلمہ گو مومن بالقرآن و رسول محمد عربی باستثنایے نبی عربی کویی نہیں تھا،جو بھی تھا وہ بت پرست مشرک یا پھر قبل اسلام مذہب مثلا عیسائی یہودی یا براہیمی مذہب کا پیروکار تھا.
آغاز نزول قرآن کے بعد قرآن جوں جوں اپنی آیات اور ان میں مذکور صاف ستھرے عقیدے،انسانی عقل کو اپیل کرنے والی ہدایات اور انسانی نفع رساں پیغامات لیکر عام ہوتا گیا جوق در جوق اس کے اپنانے والے بڑھتے چلے گیے،حتی کہ آج دنیا کا کویی خطہ ایسا نہیں ہے،جہاں اسکے ماننے والے اور اسکی تلاوت کرنے والے نہ ہوں،اسی کے ساتھ ساتھ آج کی تاریخ میں وہ اپنی ہر ایک ادا اور ہر ایک بات میں بے مثال و لاجواب ہے.یہ عقیدت پر مبنی کویی خوش فہمی نہیں؛بلکہ اصول تحقیق پر پرکھا ہوا دنیا بھر کے محققین کا متفقہ قول ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے.
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جس کتاب میں عرضی گزار کے مطابق خلاف انسانیت دو درجن سے زائد آیات ہوں،اس کے پیروکار اتنی بڑی تعداد میں ہو؟ظاہر ہے کہ یا تو عرضی گزار جھوٹا ہے،وہ اپنی من کی مراد پانے کے لئے ان آیات کو توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے یا پھر دنیا بھر کے محققین جھوٹ بول رہے ہیں!فیصلہ آپ قاریین کے ہاتھوں میں ہے.

دوسرا قانونی پہلو یہ ہے کہ ایسی عرضی تو ایک شخص یا جماعت،محروم طبقات یا جماعت یا فرد کے حقوق کی بحالی کے لیے دائر کرتا یا کرتی ہے اس میں اس دائر کرنے والے کا اپنا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا.
اس اصول کے مطابق اب سوال یہ ہے کہ اس عرضی گزار کو کس نے کہا کہ آپ میری طرف سے یہ دائر کریں؟یا اس نے کس کو محروم ہوتا دیکھا اور یہ محسوس کیا کہ واقعی یہ قرآنی آیات اور متعینہ آیات کی بنیاد پر محروم ہورہا ہے؟
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دائر کرنے کے بعد ایک بھی انسان اسکی حمایت میں نہیں آتا دکھا جو کہے کہ ہاں ایسا میرے ساتھ ہوا ہے، بلکہ سبھی حتی کے اسکے فرقے و برادری والے اور انکے ساتھ ساتھ اسکا بھایی ماں بہن اور علما سبھی نے اس دائر کنندہ کو اپنے سے الگ اور قطع تعلق والا الگ تھلگ قرار دیا.
بھلا بتایے اس طرح عرضی دائر کرکے وہ کس انسان کی نفع و بحالی حقوق کی بات کر رہا ہے؟سوایے اس کے سستی شہرت مل جایے اور بقول سوشل میڈیا آقا کو خوش کرکے اپنی منفعت بحال رکھ سکے!

بات ذاتی منفعت کی آیی ہے،تو واضح رہے کہ اب تک کی میڈیا میں چھن کر آنے والی گفتگو سے یہ منقح ہوچکا ہے کہ عرضی دائر کنندہ کبھی ایک طبقے (شیعہ) کے وقف بورڈ کا چیرمین ہوا کرتا تھا.اس پر اس کی پراپرٹی میں خرد برد کرنے کا نہ فقط الزام ہے،بلکہ ہندوستانی حکومت کی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی تفتیشی ٹیم سی بی آئی نے اس عرضی دائر کنندہ کے خلاف دو دو کیس کر رکھا ہے.وہ بری طرح سے پھنسا ہوا ہے.اس کے علاوہ مزید مقدمات الگ الگ معاملات کے بھی اس کے خلاف درج ہیں.ملک میں الیکشن کا ماحول ہے اور مذہبی شدت پسندی اپنے عروج پر ہے،ایسے میں عرضی دائر کنندہ کے بھائی کے ہی بقول وہ کسی کے کھلونے بن چکے ہیں(بلیک میل ہورہے ہیں) اور کھلونا کویی کب اور کیوں بنتا ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے.
الغرض بقول ماہرین یہ سب تماشہ اپنی گردن بچانے کے لیے دائر کنندہ نے کیا ہے.اب ظاہر سی بات ہے کہ پی آئی ایل تو نجی فائدے کے لیے دائر ہوتا نہیں،ہاں اس کے لیے رٹ پٹیشن دایر کیا جاتا ہے،جو کہ نہیں کیا گیا ہے.
بات تماشے کی آیی ہے تو اس سے یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے،کہ یہ پی آیی ایل دایر کنندہ کتنا سنجیدہ ہے اور کتنا غیر سنجیدہ اسکا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک طرف وہ اپنی عرضی میں 'تحقیق کی بنیاد پر دعویٰ' کا اعلان کرتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ سورہ اور آیت میں خلط ملط کرنا اس کی تحقیق کا پول کھولتا نظر آتا ہے،یعنی اس کو اتنی بھی لیاقت نہیں کہ سورہ اور آیت میں فرق کر سکے.
وہ ایک طرف تحقیق کی بنیاد پر متعلقہ آیات کو خلاف انسانیت قرار دیتا ہے اور اسی عرضی میں آیت کی جگہ وہ تفسیر کو قصور وار ٹھہراتا ہے. یعنی آیات 'کلام الہی' اور تفسیر 'کاوش انسانی' میں اسکو کویی فرق نہیں نظر آتا.اسی کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ دائر کنندہ کی وہ تحقیق کہاں کس جرنل یا پیپر میں شایع ہویی یہ بتانے سے نہ صرف قاصر بلکہ کھلم کھلا اس کا منکر ہے.ہے نا کمال غیر سنجیدگی کی بات!

بھلا سوچیے کیا پی آیی ایل دائر کنندہ کی تیاری اسی قسم کی ہوتی ہے؟کیا ایسے دائر کنندہ کو واقعی نیک دل اور نیک مقصد کا داعی و ساعی کہا جا سکتا ہے؛جسے معزز ججوں نے بھی ایک معیار قرار دیا ہے یا پھر فقط سستی شہرت بٹورنے اور عدالت کا وقت ضایع کرنے کا ایک بے تکا و بھونڈا طریقہ؟
حاصل کلام اگر اس عرضی اور قانونی پہلو کو سامنے رکھا جایے تو ہر انصاف پسند اسی نتیجہ تک پہونچ سکتا ہے کہ اس میں کسی بھی لحاظ سے کویی دم نہیں یہ فقط ایک سستی شہرت بٹورنے کا اسٹنٹ ہے اور کچھ نہیں!

ایسے موقع سے ہمیں یہ کرنا ہوگا!
الف:جذبات میں آکر کسی بھی ایسے قول و فعل کا ارتکاب نہ کریں،جو اس عرضی دائر کنندہ کے بے تکے دعوے کو بظاہر دلیل و سند فراہم کرے.یقیناً اس نے خدا کی شان میں جرم کیا ہے وہ ہم آپ سے بہتر طریقے سے اس سے نمٹے گا.
ب:ملک ایک دستوری و آیینی حلف کا پابند ہے،اسی لیے عدلیہ و انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیں!
ج:اس معاملے کو شیعہ و سنی کی عینک سے نہ دیکھاجایے ورنہ اس میں بظاہر کامیابی عرضی دائر کنندہ مفسد کو ہی ملے گی!
د:اس کا ساتھ گر کویی برادر وطن جذباتی ہوکر زبانی طور پر یہاں وہاں دینے کا عندیہ ظاہر کرے،تو عندیہ ظاہر کرنے دیں عملا ہم اس سے اغماز برت کر اسکی دھار کند کرسکتے ہیں،
ہ:ہر ممکن قلم و بیان سے ہر زبان میں عرضی دائر کنندہ مفسد کی جہالت عیاں کرنے پر ہم توجہ صرف کریں! اور قانونی پہلو سے سبھی کو آگاہ کریں!

امید کہ ان معروضات کو فکر و نظر اور عمل و ہنر میں جگہ دی جائیں گی! 

================
*ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+919006607678
+919122381549
mtbadr12@gmail.com

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں