الحاد اور اسلام :توقیر بدر آزاد
الحاد کیا کیا راہ دکھاتا ہے؟
سوال!
{سر!جو خدا یہ کہے کہ عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا بجائے اصل بات کہ انسان عورت کے وجود میں جنم لیتا ہے-صرف مرد کی ذات کو اونچا مقام دلانے کے لیے ہے.
اور جو قرآن میں یہ کہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی اور شوہر بیوی کو مار سکتا ہے اور شوہر بیوی کو طلاق دے سکتا ہے اور مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے اور جنت میں مردوں کی دلجوئی اور عیاشی کے لیے عورتیں ہونگی اس خدا سے آپ عورت نبی کا تقاضا کیسے کر سکتے ہیں؟}
مفتی صاحب ان سوالات کے تشفی بخش جوابات مطلوب ہیں.
عبدالمعید ندوی
=======
جواب:
سوالات اور جوابات یہ انسانی سماج کا وہ پیدائشی اور فطری خاصہ ہے، جس کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے ممتاز قرار پاتا ہے.
بظاہر پیش کردہ سوالات بھی عام سوالات معلوم ہوتے ہیں تاہم یہ عام نہیں ہیں،بلکہ یہ اپنے آپ میں دایرہ سوالات کو لیکر عام سے بالکل الگ ہیں،بلکہ تجربتا یہ کہوں کہ یہ سراسر مبالغے و مغالطے پر مبنی ہے تو غلط نہیں ہوگا.آگے اس کی تفصیل آرہی ہے.
اصولی طور پر یہ بھی دھیان میں رہے کہ سوال کرنے والے نے بزعم خود خالق کاینات کے اختیارات مطلقہ پر سوالات کھڑے کیے ہیں.جس سے یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ خالق کاینات کو مانتا اور اسے تسلیم کرتا ہے.ورنہ ظاہر سی بات ہے کہ جو خالق کاینات کو ہی نہ مانے انکے وجود کو تسلیم نہ کرے وہ عدم وجود کے بعد وجود سے وابستہ احکامات وہدایات پر اور قدرت و اختیارات پر سوال کیسے اور کیونکر کر سکتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو رات و دن کا انکار کرے اور پھر رات کی سیاہی اور دن کے اجالے پر سوالات بھی کھڑا کرے؟ نہیں نا!
تو پہلی بات تو یہ طے کرنی ہوگی کہ سوالات کرنے والے خالق کائنات کو مانتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہر ایک مکالمے اور موضوع کا اپنا ایک دائرہ گفتگو {frame of refrence} ہوتا ہے.اگر وہ مانتا ہے تو پھر اسے خالق کائنات پر سوالات کرنے کی ضرورت نہیں،کیونکہ انکی شان 'فعال لما یرید'اور 'لا یسئل عما یفعل' والی ہے. اور اگر نہیں مانتا تو پھر یہ سوالات ہی بے بنیاد ٹھہرتے ہیں.
اس بنیادی اصول کی وضاحت کے بعد بغرض تسلی و تشفی عرض ہے کہ بحیثیت مومن ہمیں ہمیشہ یہ حقیقت ذہن میں بٹھا کر رکھنا چاہیے کہ دین اسلام اپنے آپ میں ایک مکمل ضابطہ و دستور کا حامل دین ہے.اس میں کچھ بھی دوسرے سے ادھار یا مستعار نہیں اور نہ کویی نقص خلل!اس کی اپنی ہدایات و احکامات {Rules & directions} علمیات {Epistemology} اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنی لمیات و کیفیات {Causes & conditions} ہیں.
سایل کا سوال بنیادی طور پر عورت و مرد کے درمیان مطلق تفریق پر مبنی ہے،جوکہ بظاہر سوال مگر بباطن ایک مذاق معلوم ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ سائل سوال میں عورت و مرد ذات کو پیش کر رہا ہے اور اعتراض میاں بیوی کے حقوق پر کررہا ہے.گویا آدھی ادھوری بات پیش کرکے خلط مبحث سے کام لے رہا ہے. حالانکہ یہ سوال مطلق عورت و مرد کو لیکر نہیں بلکہ عورت و مرد سے اگلا مرحلہ میاں بیوی کا جو پابند اصول و ذمہ داری ہوتا ہے،اس سے اصلا چسپاں ہے.تفصیل آگے آرہی ہے.
خیر مطلق مرد ذات و عورت ذات کے متعلق ہی سہی آپ سائل سے ہی یہ پوچھ لیں کہ آج کی بے خدا دنیا کیا عورت و مرد دونوں کو مطلق ہر سطح پر برابر مانتی ہے؟کیا وہ ان میں کسی بھی قسم کی تفریق تسلیم نہیں کرتی؟ کیا وہ مطلق اس کی انکاری ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی باتوں کا قائل کویی صاحب عقل سلیم نہیں ہوسکتا چہ جایکہ خالق کاینات سے اس کی توقع رکھی جایے! خود سائل نے ان میں تفریق روا رکھ کر اپنی بات چلایی ہے.
بہر حال ہم آپ جانتے ہیں کہ مرد و عورت دونوں کی تخلیقی ساخت الگ الگ ہیں.ان میں رجحانات و میلانات فطرتا الگ الگ ودیعت کیے گیے ہیں.اور اسی بنیاد پر دونوں کی دنیا میں ذمہ داریاں بھی الگ الگ رکھی گیی ہیں.اور خالق کائنات کے یہاں انکی فضیلت انہی ذمہ داریوں سے مربوط ہے،محض صنف و ذات سے نہیں!
انہیں 'دین اسلام ' کے لحاظ سے بھی خالق کاینات نے خوب خوب پابند کیا ہے اور کمال ہے کہ اس میں بحیثیت صنف کسی کی برتری اور کم تری، فضیلت و سطحیت روا نہیں رکھی گئی ہے!بلکہ موقع بموقع فضیلت کا معیار تقوی اور خدا ترسی کو قرار دیا گیا ہے.ظاہر ہے اس کا تعلق ایمان اور دل و جوارح کی خشیت و عمل سے ہے،جن سے دونوں صنف بحیثیت مومن برابر نوازے جاتے ہیں.
إن تمہیدی و بنیادی گفتگو کے بعد عرض ہے کہ سائل نے خالق کائنات خدا کو مطلقاً عورت کی پیدائش پسلی سے کہنے والا قرار دیا ہے،جو کہ اپنے آپ میں سراسر غلط ہے،کیونکہ اس طرح کا دعویٰ کرنا گویا قرآن میں اس قسم کی آیات فراہم کرنا ہے.جبکہ قرآن کریم ایسی کسی بھی بات سے بالکل پاک ہے.گویا ہم اسے یہاں معترض کا جھوٹ کہہ سکتے ہیں.اولا تو ایک حد تک یہ بات ابتدائیے آفرینش (آدم و حوا علیھما السلام) کی ہوسکتی ہے.اسے عام سبھی مرد و عورت سے متعلق کرنا سراسر غلط ہے.ثانیاً یہ قرآن میں نہیں ہے،بلکہ صیغہ 'خلقن' سے تخلیق کی بات حدیث میں آیی ہے.جسے حوا علیھا السلامُ کی 'تخلیق و پیدائش' ہی ماننا لازمی نہیں ہے.چہ جاییکہ سبھی عورتوں کے متعلق یہ گمان باطل روا رکھا جایے.جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے.
اگر ان کو عورت و مرد کی تخلیق اور حقیقت واقعہ خدا کے کلام قرآن میں معلوم کرنا ہے،تو انہیں چاہیے کہ اسکے لیے سورہ نسا کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کریں!اسی کے ساتھ سورہ اعراف آیت نمبر ١٨٩ اور سورہ زمر آیت نمبر ٦ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے.ان آیات سے صاف صاف محسوس ہوتا ہے کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے جز ہیں اور مکملات ہیں. تاکہ ان میں جذبہ رفاقت اور مروت باقی رہے نہ کہ ایک دوسرے کی ضد و تفریق جس سے مخاصمت و تفریق کا جزبہ پروان چڑھے!
ہاں البتہ کلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں عورت کی بناوٹ اور پسلی کا تذکرہ آیا ہے.وہاں آپ مکمل ہدایت،مخاطب کی حالت نیز ترکیب کلام سے اسکی حقیقت سمجھ سکتے ہیں.
وہاں مکمل بات سمجھنے کے بعد کویی ذی ہوش انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ابتدائے انسانیت اور تخلیق کی بات کہی جارہی ہے،بلکہ وہاں عورت کی فطرت اسکی نزاکت اور مرد کو قوت کے برداشت سے کام لینے کی ہدایت دیتے ہویے عورت کی مزاجی بناوٹ کو ایک قابل فہم چیز سے تشبیہ دیکر مرد بلکہ شوہر ذات کو بات سمجھائی جارہی ہے.جسے ہم ایک دانشورانہ مشاورت {Philosophical counciling} کہہ سکتے ہیں.اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں اگر کسی اسکول کا ذمہ دار شخص بچوں کی شرارت پر اساتذہ کو سخت تادیبی کارروائی کرتا دیکھے تو بطور فہمائش یہ کہے کہ یہ پھول ہیں ان سے پیار کے ساتھ ہی نمٹیں! اب اگر کویی بد ذوق آدھی بات ہی لے اور کہے کہ فلاں ذمہ دار نے تو بچے کو ایک گھاس پھوس پیڑ پودے کہکر اسے مسلنے کچلنے کی ترغیب دی ہے،تو اس کا ہم آپ کیا کرسکتے ہیں؟
سائل نے جہاں حدیث میں پسلی والی بات عورتوں کی بابت دیکھی ہے اور واویلا مچایا ہے کاش وہ یہ بھی دیکھ لیتا کہ انہی عورت کو حدیث مبارکہ میں شیشہ (جیسا نازک دل) بھی کہا گیا ہے.کیا حدی خواں انجشہ والی روایت انکی نگاہ میں نہیں ہے؟اگر نہیں ہے تو ہونی چاہیے اور پھر سبھی کو سامنے رکھ کر گفتگو کرنی چاہیے!
اسی کے ساتھ دھیان رہے کہ مطلقا پیدائش کو لیکر بھی ایسا کہنا درست نہیں ہے،اور اس پر سوال کرنا تو إنتہای حماقت!کیونکہ عام مرد و عورت کی پیدائش کس طرح ہوتی ہے؟اس کا تردیدی جواب دیکر اپنے سوال میں ہی سائل نے اس کی نفی کردی ہے.
اسی کے ساتھ اس کی یہ بات کہ ذات مرد کو ذات عورت پر ایک اونچا مقام دلانا ہے-کی نفی و تردید یوں بھی ہوتی ہے،کہ رب کریم نے مطلق 'صنف' کو تقویٰ کا معیار نہیں قرار دیا ہے،بلکہ ذمہ داری اور خدا ترسی کو اصل معیار ٹھہرایا ہے.اسی کے ساتھ ساتھ احادیث میں باپ جو مرد ذات ہے،اس پر ماں عورت ذات کو اسکی ذمہ داری دیکھتے ہوئے بار بار سوال پر ماں کی خدمت کی جو ہدایت دی گیی،کیا اس سے ایک ذات عورت کا مرد سے کیی گنا فضیلت سے سرفراز ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟کیا یہ سائل کی نگاہ میں نہیں؟
اس لیے اس کا مطلق مرد ذات کو مزعومہ اونچا مقام دلانے کا دعویٰ کرنا یا مطلق عورت پر مرد کو افضل کہنا یہ قطعاً درست نہیں ہے.
جہاں تک قرآن میں عورت و مرد کے مابین فضیلت کی بات سائل نے پیش کی ہے،یہ سراسر دھوکہ{fallacy}اور فریب ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے بیوی و شوہر کے درمیان جو بات بتائی ہے،اسے مطلق عورت و مرد کا مسئلہ بناکر سوال داغا گیا ہے.
آپ کہیں گے کہ بیوی و شوہر بھی تو عورت و مرد ہی ہیں،بلاشبہ ہیں. مگر جب سوال قرآن اور اسکی ہدایت پر ہوگا،تو جس بات کو لیکر ہدایت دی جارہی ہے.اسے سامنے رکھنا ہوگا،یہی علمی امانت و اسلوب اور تحقیق و تدبر کا تقاضا ہے.میاں بیوی بننا یہ ذات مرد و عورت سے سوا کچھ اور بھی ہے.ان کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک عام انسان اور اسی انسان میں سے ایک ذمہ دار خاص شخص جج، وزیر اعلی و وزیر اعظم وغیرہ وغیرہ!جیسے یہاں عام انسان بول کر خاص شخص کو عام کی سطح پر رکھ کر بات نہیں کیا کرتے،اسی طرح میاں بیوی کے معاملات کو عام مرد و عورت کے معلامات پر نہیں تول سکتے!جہاں ایک عام اجنبی مرد و عورت کے درمیان اسلام میں پردہ و آڑ ہے،وہیں میاں بیوی جیسے خاص جوڑے کے درمیان ایسی رفاقت کہ شوہر مرد ذات مہر سے لیکر نان نفقہ تک خاتون ذات کا ناز بردار اور بیوی عورت ذات مکمل سراپا وفادار!
آپ جانتے ہیں اسلام میں رشتہ نکاح کی بڑی اہمیت ہے،بلکہ یہ ایک ادارہ institution ہے.ایک مرد و عورت کا میاں بیوی بننا گویا ایک نظم و ضبط کے دایرے میں آنا ہوتا ہے،تاکہ آیندہ نسل بہتر ماحول میں پروان چڑھ سکے.ایک ادارہ کھڑا کرنا ہوتا ہے،جہاں دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں طے ہوتی ہیں اور اسی کے مطابق نسل در نسل بندہ خدا یعنی نسل انسانی کا سلسلہ جاری رکھنا ہوتا ہے.
دین اسلام شوہر کو بحیثیت ذمہ دار، مہر و نان نفقہ برادر اس ادارہ نکاح میں سربراہ کے منصب پر بٹھاتا ہے. اور خاتون کو بحیثیت بیوی سبھی دنیاوی بوجھ و ذمہ داریوں سے آزاد رکھ کر فقط شوہر کا وفادار ٹھہراتا ہے.
اسی ذمہ داری کو قرآن نے اس آیت میں سمجھایا ہے.جس کو غالباً معترض نے پیش کیا ہے.گھر گرہستی کیسے چلتی ہے اس آیت میں اسے بتایا ہے.آپ خود سوچیے اور معترض سے پوچھیے کیا آج کی نام نہاد روشن خیال مہذب دنیا میں جتنے بھی ادارے ہیں وہاں ایک ذمہ دار و سربراہ {manager /owner}نہیں ہوتا؟ کیا اسے اپنے ساتھ والوں کے ساتھ غلطی پر بحیثیت ذمہ دار روک ٹوک اور تادیبی کارروائی کی اجازت نہیں ہوتی؟کیا ضرورت پڑنے پر یا کسی ضرورت مند پر ترس کھاکر بحیثیت معاونین ساتھ والوں کی تعداد نہیں بڑھایی جاتی؟ کیا ضرورت پڑنے پر اسے برطرف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا؟ کیا ایک مرد ذمہ دار دوسرے مرد پر کارروائی نہیں کرتا؟ کیا ایک مالکن عورت دوسری ماتحت عورت پر کارروائی نہیں کرتی؟کیا اس صورت میں بھی عورت و مرد کا ہی مسئلہ ہوتا ہے؟ جب ان سبھی جگہوں پر تعداد بڑھانے اور تادیبی کارروائی و برطرفی کو گوارا کیا جاتا ہے_جن میں بسا اوقات جان لینے، کورٹ کچہری میں رسوائی و بھاری بھرکم جرمانے تک کی نوبت آتی ہے _تو پھر ذمہ دار، مہر و نفقہ کے حامل اور بیوی کے ناز بردار میاں و شوہر کی بات جب آتی ہے،تو وہاں شادی والے ادارے میں بوقت ضرورت ضرب سے لیکر ایک طلاق و تعدد ازواج پر مطلق یکطرفہ شور و غوغا کیوں کیا جاتا ہے؟جب کہ ان صورتوں میں نہ تو کسی کی جان کی جاتی ہے نہ کسی کی عزت اچھال کر زندگی موت سے بدتر بنایی جاتی ہے!بلکہ مہر ادا نہ کیا ہو تو مہر اور دیگر اخراجات کے ساتھ رخصت کرنے کا شوہر کو پابند بنایا جاتا ہے.بعد وفات اسکی جاییداد میں وارث و مالک بنایی جاتی ہے.
ہاں کچھ مسلمان ایسے ہوسکتے ہیں جن کو ان ہدایات کی آڑ میں بیوی کو مشق ستم بنانا آسان نظر آتا ہوگا.واضح رہے اس کا اسلام اور خدائی قانون سے کویی تعلق نہیں!
اس لیے یہ بات اچھی طرح سے ذہن میں بٹھانے کی ہے اسلام و قرآن میں کسی طرح کا فرمان فقط عورت و مرد ذات کے لحاظ سے نہیں،بلکہ بعد شادی و نکاح بحیثیت میاں و بیوی اور ان کی ذمہ داری سے مربوط ہے.اس لیے بات اسی کے مطابق ہونی چاہیے،اسی طرح قرآن و اسلام میں تقویٰ شعاری و ذمہ داری کی تکمیل کو معیار فضیلت گردانا گیا ہے نہ کہ مطلق مرد و عورت کی ذات کو آپس میں افضل و مفضول بتایا گیا ہے،جس کا دعوی باطل سائل کر رہا ہے.
جہاں تک جنت اور حور کی بات ہے تو اس میں دنیاوی عورت ذات کو سوال کے گھیرے میں لینے اور گھسیٹنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آگیی؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے.
بہتر ہوگا کہ سائل اس دنیا میں ہوٹلنگ سے لیکر اییر ہوسٹس تک،استقبالیہ سے لیکر نایٹ و ڈانس کلب تک جہاں عورت کو ہی بشرط عمر مخصوص، لباس مخصوص، قابلیت و تعلیمی لیاقت مخصوص بشکل ملازمہ رکھا جاتا ہے. خدمت و استحصال اتنا کہ زندگی غلام سے بدتر نظر آتی ہے اور بسا اوقات اخبارات کی خبریں سائل کی ہی بات 'عیاشی و دل بستگی' جیسے لفظوں کی تصدیق کرجاتی ہیں، وہ ایسے سؤالات وہاں کھڑا کرے انکے حقوق کی لڑائی لڑے ویسے بھی یہ سب اس دنیا سے متعلق ہے.شاید یہاں کچھ شنوائی ہوجایے!
اسی کے ساتھ ساتھ عورت کی نفسیات میلانات اور رجحانات کا مطالعہ کرے، خالق کائنات کی قدرت حکمت اور آخرت پر غور کرے!جنت میں جتنی 'جنتی نعمتوں' کا ذکر آیا ہے وہاں یہ دیکھے کہ کیا وہاں عورت و مرد دونوں کو محظوظ ہونے کی بات نہیں کہی گیی ہے؟اور جہاں 'جنسی رغبت' کی باتیں آیی ہیں، جو کہ دو-طرفہ رغبت و چاہت کی حامل ہوتی ہیں- وہاں مرد کے لیے حور کی باتیں اور عورتوں کے متعلق خاموشی کیا یہ انکے اندر حیا کے لحاظ سے بہتر نہیں ہے؟ہاں اگر اسکی مطلق تردید کی بات ہوتی،تو بات قابل شنوائی تھی! کیا اس قسم کی قابل لحاظ باتوں کو جنت جیسے پاکیزہ ماحول میں عیاشی سے جوڑنا یہ حماقت نہیں ہے؟
رہ گئی آخر میں عورت کو نبی بنایے جانے کی بات تو ظاہر ہے کہ جب ان کو نبی بنایا جاتا تب بھی ایسے خدا بے زار لوگ 'سوال' ہی کرتے، بلکہ شدت سے مزید سوالات اٹھاتے کہ کیا ضرورت تھی صنف نازک کو اتنی بڑی ذمہ داری دینے کی؛ کہ کہیں انکے سر پر آڑی چلایی گیی، تو کہیں انکو پتھر سے لہولہان ہونا پڑا.یہیں نہیں کہیں کہیں تو انہیں فرضی جسمانی نقص پر مبنی طعنے سے لیکر سماجی بائیکاٹ تک کا سامنا کرنا پڑا؟
ظاہر ہے نبوت ایک بڑا ہی اہم مقدس اور جوکھم بھرا منصب و فریضہ رہا ہے.جس سے نہ فقط عام مرد بلکہ رب ذوالجلال کے منتخب شدہ فرد کو ہی سرفراز کیا جاتا رہا ہے.انہیں چوبیس گھنٹے اس سے عہدہ بر آ ہونا پڑا ہے.نزول وحی کے ساتھ ساتھ ہر ایک سخت سست کا سامنا کرنا پڑا ہے.کیا ایک خاتون بحیثیت خاتون جو کہ اپنی ماہواری سے گزرتی ہے، بچوں کو جنتی ہے، انہیں دودھ پلاتی ہے، غیروں کے سامنے جانا اسکی شان کے خلاف ہے.
اسے اس اہم مقدس و منتخب ذمہ داری سے سرفراز کیا جانا کیا قابل قبول بات ہوتی؟ کیا ان باتوں کے پیش نظر یہ سوال ذہن میں نہیں آتا کہ ان نازک صنف کو ایسے بھاری بھرکم فریضے سے کیوں کر سرفراز کیا جایے؟
ہاں اگر کسی کو بظاہر لگتا ہے کہ انکو اس اہم مقدس منصب سے محروم رکھ کر یک گونہ کمتر بنایا گیا ہے، تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک نبی بھی انکی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں!کیا یہ تقدیس انکو نظر نہیں آتی؟ماں کی فضیلت دین اسلام میں کیا کچھ ہے اس کی بابت اوپر یہ بیان ہوچکا ہے.اسلامی نقطہ نظر سے ماں کے قدموں تلے جنت سے آج کون ناواقف ہے؟
حاصل کلام یہ کہ اسلام میں فضیلت و برتری کا تعلق تقویٰ اور ذمہ داری سے وابستہ ہے اسکا صنف سے مطلق کویی رشتہ نہیں.
مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے رفیق قرار دییے گیے فریق ہرگز نہیں.نسل انسانی کی بقا کے پیش نظر میاں بیوی کا رشتہ نطم و ضبط سے بندھا اور پابند اصول رشتہ ہے.بے ہنگم ہرگز نہیں!
ان تمام تر نکات سے واقف ہونے کے لیے دین اسلام کے احکامات کو گہرائی سے جاننے کی کوشش کرنی ہوگی.تاکہ وساوس یا اعتراضات جب ہوں تو اسکے جوابات سامان تسلی فراہم کرسکیں!
خصوصاً عہد حاضر میں جہاں نسل نو کو آزادی اظہار رایے کے پیراے میں طرح طرح سے مبادیات دین سے بھٹکانے کی نہ صرف کوشش ہوتی ہے بلکہ انہیں کھل کر الحاد و ارتداد کی دعوت دی جاتی ہے!راقم آنے والے سوالات کی روشنی میں یہ کہنے میں حق بجانب ہے. اللھم احفظنا منہ!
جواب ذرا طویل ہوگیا مگر کیا کرتا تسلی و تشفی کے لیے یہ ناگزیر تھا.اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
٢٣مارچ/٢٠٢١
رابطہ نمبر 919006607678+
واٹس ایپ نمبر 919122381549+
mtbadr12@gmail.com
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں