انکار روح اور ارتداد کی زیریں لہریں :توقیر بدر آزاد

 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب اگر کوئی یہ کہے کہ روح کچھ نہیں ہے اور اس پر ثواب و عقاب کی بات سب من گھڑت ہے،انسان کا وجود فقط آکسیجن کا مرھون منت ہے.جیسے کہ روبوٹ بیٹری و چارج کی، کہ جیسے ادھر بیٹری ختم وہ بے جان،اسی طرح آکسیجن oxygen


بند تو انسان مردہ Dead!
ایسی صورت میں ایسے لوگوں کو کس طرح سمجھایا جایے،کیا اسلام اس کو اس انداز سے تسلیم کرسکتا ہے؟افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ اسکول میں بچوں کے اذہان کو بھی دین سے پھیرنے کے لیے ایسی کوشش کرتے ہیں! بظاہر ساینس پڑھاتے ہیں مگر اسکی آڑ میں یہ سب سمجھ میں نہیں آرہا ہے.
از راہ کرم آپ اپنے اسلوب میں اسلامی و قرآنی اطمینان بخش جواب عنایت فرمانے کی زحمت کریں! رب العالمين آپ کو سلامت رکھے آمین!
آپ کا دینی بھائی جمیل فیصل میرٹھ
______________________

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
آپ نے جو سوال بھیجا ہے اس کے حوالے سے ایک کلیدی بات{key point} آپ کو بات بتانا چاہتا ہوں.
وہ یہ کہ الحاد {Atheism} اور ڈارون کے پیروکار {Followers} بے خالق مخلوق،بے خدا دنیا اور بے روح مشین کے مانند انسان کی الگ الگ انداز سے پرزور تبلیغ کرتے رہتے ہیں.
وہ ان بے تکی باتوں سے خالق حقیقی و مالک برتر اور حشر نشر جنت جہنم ان سبھی کا انکار کرتے ہیں اور بالآخر انسان کو جانور کی سطح سے بھی نیچے لے جانے کی سر توڑ کوششوں میں سرگرم عمل ہیں.
المیہ یہ ہے کہ ان کو اس کی تبلیغ کے لیے موزوں پلیٹ فارم سیکولر اسکولی نصاب کی شکل میں مل جاتا ہے.جن سے وہ معصوم اذہان کو پراگندہ و منتشر کرنے میں کویی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے!
ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ابتدایے کاینات کے لیے ایک عظیم دھماکہ بگ بینگ{Big bang}کی تجویز {Theory} اور انسانی تخلیق کے لیے یک ڈارونی فرض کردہ نظریہ ارتقا {Evolution} کو پیش کرتے ہیں.تاکہ انہیں نہ خالق کاینات تسلیم کرنا پڑے اور نہ انکے سامنے مرنے کے بعد جواب دہ ہونا پڑے،اسی طرح وہ انسان کو بے روح ایک مشین فرض کرتے ہیں،تاکہ حشر نشر سے منکر رہ کر کسی بھی الہامی،اخلاقی اور شرعی اصول و ہدایات کے پابند نہ ہوں. بدقسمتی سے اسی کو وہ فرد و معاشرے کی ترقی کا اصل الاصول گردانتے ہیں!
العیاذ باللہ

اس کے بعد عرض ہے کہ بیالوجی{Biology} حیاتیات کے حوالے سے بلاشبہ آکسیجن {oxygen} کی انسانی زندگی کی بقا میں اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،لیکن یہ بحیثیتِ سامان زندگی اور چیزوں کی طرح یہ فقط ایک گیس{gas} ہے.
حقیقتاً من وعن یہ گیس {oxygen} ہی محیی و ممیت ہو (زندگی دینے و ختم کرنے والا)ہو ایسا ہرگز نہیں ہے،کیونکہ انسانی وجود اپنی روح اور خالق روح کے حکم کا اصلا مرھون منت ہے.اور اس وجود کی علامت اس کی سانسیں ہوسکتی ہیں.جن میں معاون یہ آکسیجن ہے.
اسلامی نقطہ نظر سے "روح کی جگہ فقط آکسیجن" والی بات بالکل واہیات اور روبوٹ پر قیاس خرافات کی قبیل سے ہے.

واہیات اس لیے کہ اگر سائل کی منطق تسلیم کر لی جایے،تو پھر یہ بھی ماننا ہوگا،کہ ایک مردہ انسان جو آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مر چُکا ہے، اسے آکسیجن کی وجہ سے دوبارہ زندہ کر لیا جایے،جیسا کہ ایک روبوٹ کی بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے وہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے،اور چارج کرنے پر دوبارہ اپنی حالت میں واپس آ جاتا ہے.حال آں کہ ایسا نہیں ہوتا ہے.
ہم آیے دن دیکھتے رہتے ہیں کہ ہاسپٹل میں سفر آخرت پر روانہ مردہ انسان بازو میں وافر مقدار میں مہیا آکسیجن کے باوجود اپنی دنیوی زندگی میں واپس نہیں آتا ہے.ساری انسانی کوششیں دھڑی کی دھڑی رہ جاتی ہیں.انا للہ و انا الیہ راجعون!
اسی سے روبوٹ پر قیاس کی خرافات بھی سمجھ میں آگیی ہوگی،کیونکہ آپ یا یہ سوال کرنے والا اچھی طرح سے جانتا ہے کہ روبوٹ کا ڈیزائن اور اس کا اپنا ایک اندرونی حرکیاتی عمل (proceccing) ہوتا ہے،جو کہ ایک انجینئر کے دماغ کا کمال ہوتا ہے.
روبوٹ تیار کرنے والی کمپنیاں اسکی تیاری کے لیے جو اپنا پروجیکٹ{project}اور بجٹ بناتی ہیں وہ سب سے پہلے انجینئرز کو ساتھ لیتی ہیں،بالآخر روبوٹ اپنے ڈیزائن کے مطابق اصل پروسیسر proceccor جو ایک انجینئر کے دماغ کا کمال ہوتا ہے،وہ اس کے مطابق چلنا {Run}شروع کرتا ہے.اب جب انجینئر ہی اس کو بند{off} کردے اور وہ پروسیسر کام کرنا بند کردے، تو اس سے پوچھیے کہ کیا بیٹری اپنا کام آپ کرکے اس روبوٹ کو جاری {active} رکھ سکتی ہے؟ظاہر ہے ہرگز نہیں!

اسلامی و قرآنی باتیں روح کے حوالے سے یہی ہے کہ روح رب کا ایک امر ہے،یوں کہیے کارخانہ عالم کو چلانے کے لیے یہ ربانی حکم{Divnie order}ہے.
قرآن نے اپنے نزول کے وقت سائلین کے سوال جواب دیتے ہوئے اسکی اجمالی کیفیت یہی بتایی اور اسکے ہونے کا پورا پورا یقین و ثبوت فراہم کیا.
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٨٥ اس بابت بڑی راہنما آیت ہے{وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ؕقُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا}{۸۵}
ہاں اسکی کیفیت کیا ہوتی ہے کیسا دکھتی ہے اسکا رنگ و وزن کیسا اور کتنا ہے؟ ان باتوں نے فلاسفرز و عقلا کو ہمیشہ حیران رکھا اور قرآن نے بھی یہی کہا کہ تمہیں اس کا علم دیا ہی کتنا ہے؟ بس تھوڑا سا علم تمہیں دیا گیا ہے!
بس یوں سمجھ لیں جیسے بڑے بڑے کارخانہ کو چلانا ہو،اسکے کل پرزے کو جاری کرنا ہو تو آپریٹر،جنریٹر اور برقی رو{Electricity} یہ سبھی ہوتے ہیں اور جوں ہی ایک آپریٹر بجلی کو ان کل پرزے میں دوڑاتا ہے وہ چالو ہوجاتا ہے اور پھر بند کرتے وہ وہ سب بند!
سمجھنے کے لیے یہاں بس اتنا سمجھ سکتے ہیں کہ بجلی اور برقی رو کے مانند روح ہے اور آپریٹر سے ہم فرشتے کی مثال سمجھ سکتے ہیں اور اس فیکٹری کے مالک سے رب کاینات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں!

اس لیے ان کے ان بے بنیاد باتوں اور مغالطوں کی حقیقت کو سمجھیں اور ان سے بچیں اور بچوں کو گھر پر خود سے وقت دیں دینی بنیادی باتیں بتانے کی کوشش کریں!اچھے باصلاحیت خدا ترس عالم دین سے رابطہ رکھیں اور اپنے سوال وجواب انکی خدمت میں ضرور رکھیں!الحاد اس دور کا سب سے بڑا فتنہ بنتا جارہا ہے.علم و عقل کی راہ سے اسے پروسا جارہا ہے.ارتداد کی یہی زیریں لہریں ہیں. اللھم احفظنا منہ!

رب کریم ہم سب کو زیغ و ضلال سے محفوظ رکھے آمین!

دعاؤں میں یاد رکھیں! آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا سابق استاذ افتا وقضا المعھد العالی للتدريب فی القضاء و الإفتاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار
12/03/2021

 919006607678+
919122381549+
mtbadr12@gmail.com

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں