خود کشی اسباب و حل: توقیر بدر آزاد
خود_کشی_آخر_کیوں؟
ت بدر آزاد
آج صبح ایک موقر گروپ پر ایک خاتون کا وائرل ویڈیو کا لنک نظر آیا.لنک کھولنے پر معلوم ہوا اس میں ہر لحاظ سے ایک صحت مند خاتون نے خود کشی سے قبل خدا سے ملنے کی بات کہی ہے.اور اشارے اشارے میں خدا سے شکوہ بھی!پھر اسکے بعد سبھی احباب کے تبصرے سامنے آیے کہ یہ آج جہیز کی بھینٹ چڑھ گیی اللھم احفظنا منہ!
وہاں سبھی اہل علم کے درمیان راقم کا موقف یہ تھا کہ ایسے معاملات{cases} میں ہر ایک وجوہات اقدام قتل پر غور کرنے اور اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے. میرا ماننا یہ ہے کہ اصلا فرد و سماج ہر ایک کہیں نا کہیں عملاً فکراً اس میں ملوث ضرور ہوتا ہے.
لڑکی کے ماں باپ بھائی چچا یعنی سبھی ماییکے والے میں اس ہندوانہ سوچ کا راسخ ہونا کہ شادی کردی،جہیز دے دیا اب لڑکی سسرال کی ہویی.اسکے بعد کچھ ہوا تو پھر صبر و رضا کی اسلامی تلقین ہو نہ ہو البتہ یہ ہندوانہ جملہ بولنے میں دریغ نہیں کرتے دیکھو بیٹا ہمارا مان سمان رکھنا تم تو جانتی ہو کہ "ڈولی باپ کے گھر سے اٹھتی ہے اور ارتھی شوہر کے گھر سے" بس!وراثت میں حصہ تو دینا نہیں جو کہ اسلامی ہدایت ہے.گویا کسی ناگہانی صورت میں گھر واپسی کی کویی سبیل چھوڑتے نہیں! گویا کنیا دان کردیا. اب کچھ بھی ہو اب وہیں مرو باپ گھر آنا نہیں!تو اب ایسی ذہنیت، سوچ اور ماحول میں پلنے والی بچی بعد نکاح کسی ناگہانی صورت میں جایے تو کہاں جایے؟کاش سادہ نکاح اور منصفانہ تقسیم وارثت کو فروغ دینے کی اسلامی پہل کی جاتی بچپنے سے ہی لڑکے میں یہ بات بٹھای جاتی اور اسے قریہ قریہ اپنایا جاتا،تو نہ فقط زندگیاں بچای جاتیں،بلکہ یہ غیروں کے لیے سراپا تبلیغ عام ہوتا!
اسی طرح مرد و سسرال والوں کی جہیز پر ایک عجیب حریصانہ نگاہ کہ مرو یا جہیز لاؤ. اور لاتے رہو!جس کا نتیجہ سامنے ہے!کاش ایسے حریصوں کی ذہنیت اسلامی تقسیم وراثت سے درست کی جاتی! حالانکہ انکے گھر بھی بہن بیٹی ہوتی ہیں یا تو وہ کسی کو دیکر امید آنے والی بہو سے رکھتے ہیں یا پھر یہ وہ درندے ہوتے ہیں جنہیں فقط انسانی قالب ملا ہوتا ہے.کاش انہیں کویی لگام دینے آگے آتا!
اسی کے ساتھ ساتھ آج جبکہ تعلیم عام ہو رہی ہے،کھلے ماحول میں آزادانہ سوچ کے ساتھ سب جینے کی کوشش کررہے ہیں،تو پھر یہ ذہن کیوں نہیں بنایا جاتا کہ خود کشی ہی تو کویی حل نہیں؟ یہی ایک آخری راستہ تو نہیں؟ آخر اسلام میں بعد نکاح طلاق و خلع کس لیے رکھے گیے ہیں؟مگر برا ہو، ڈرامہ سیریل اور ان ذہنیت کا جن میں پیش کردہ واہیات و خرافات بھی ایک فیشن یا اقدام قتل بنتا جارہا ہے.
بھلا بتایے یہ بات کون نہیں جانتا کہ فلموں اور ڈرامہ سیریلز میں جو کچھ پردے پر ہوتا ہے وہ ناٹک ہے، مگر اسی ناٹک کو نئ نسلیں جب دیکھتی ہیں،اور مسلسل دیکھے جاتی ہیں تو اسے سچ مان لیتی ہیں.
میاں بیوی میں کچھ تلخی ہویی اور بیچ بچاؤ کی جگہ دوری بنی،تو ٹھیک اس ناٹک کو اپنی زندگی میں منطبق{apply} کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہیں!یہ آیے دن کا شیوہ بنتا جا رہا ہے.چناچہ خود کشی سے قبل خوشی خوشی ویڈو بناکر عام کرنا اسی ذہنیت کی غماز ہے.
کاش ایسی صورت میں قرآنی تحکیم کا فارمولہ اپنانے کی روش عام ہوتی دونوں فریق کی طرف سے ذی شعور افراد سر جوڑ کر بیٹھتے اور حل نکال کر آسانیاں پیدا کرتے!مقدمات میں بیجا طول طویل نہ الجھتے!
اسی کے ساتھ ساتھ خود کشی کرنے والا بظاہر ٹھیک ٹھاک لگتا ہے،مگر دماغی لحاظ سے کیا کچھ ہو چکا ہوتا ہے،اس کا درست فیصلہ ماہرین نفسیات ہی بہتر کر سکتے ہیں.
آخر میں ان دوستوں صحافیوں اور احباب سے اتفاق ہے،جنہوں نے طلاق ثلاثہ بل کے موقع سے سڑکوں پر اترنے والی خواتین و تنظیم سے یہ اپیل و خواہش ظاہر کی ہے،کہ کاش آپ ان جہیز کے لالچی کے ہاتھوں بھینٹ چڑھنے والی بچیوں کی حفاظت کے لیے بھی موثر آواز کے ساتھ سڑک پر اترتے،تو شاید وہ آج زندہ ہوتی اور آیندہ کویی اسکی بھینٹ نہ چڑھتی!امید کہ آپ اتریں گے!معمار قوم ان جیسی حرکات پر قدغن لگانے کےلیے منصب تدریس کا بھر پور استعمال کریں گے !
بہت خوب اور شاندار ، اللہ آپ کو خوب ترقی دے
جواب دیںحذف کریںآمین ثم آمین
جواب دیںحذف کریں