قرآن مقدس اور منطقی تضاد سوال جواب؟ توقیر بدرالقاسمی
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب ایک صاحب جو غیر مسلم ہیں وہ
کہتے ہیں کہ قرآن میں منطقی نقص و تضاد (Logically fault) ہے.وہ اس کی مثال بھی دیتے ہیں کہ قرآن نے کیی جگہ اپنی باتوں کو خود ہی الٹ کر بیان کیا ہے.اس کی مثال وہ سورہ عنکبوت کی دو آیات سے دیتے ہیں پہلی آیت نمبر ١٢(وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْاسَبِیْلَنَاوَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ؕوَمَاہُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰہُمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ) اسکے بعد آیت نمبر ١٣(وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًامَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۫وَلَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْایَفْتَرُوْنَ)کہ یہاں دیکھو پہلی آیت میں یہ ہے کہ جب ایک گروہ نے ایمان لانے والے سے کہا کہ تم لوگ کسی کے بہکاوے میں مت آؤ!ہماری سنو!فکر مت کرو اگر حساب کتاب کی نوبت آیی،تو تمہاری ساری بلا ہمارے سر!سارا بوجھ ہم اٹھا لیں گے.تو یہاں قرآن نے ایسا کہنے والے کو(انھم لکاذبون)جھوٹا قرار دیا اور کہا وہ کیوں کر اٹھائیں گے وہ نہیں اٹھانے والے یہ جھوٹ بول رہے ہیں!
پھر معا اگلی آیت میں اپنی اسی بات کو قرآن نے رد کردیا ہے اور کہا کہ انکو بوجھ اٹھانا ہوگا اور جن کو بہکایا ہے ان کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا! اب بتایے کیا یہاں منطقی تضاد(Rational contradiction) نہیں ہے؟
اسی بوجھ اٹھانے کی بات وہ مشرکین بھی کہہ رہے تھے،تب تو ان کو جھوٹا کہا اٹھانے کی نفی کی.اور پھر اس کو جھوٹا کہنے کے بعد اسی جھوٹ کو دہرایا جارہا ہے،گویا خود ہی اس جھوٹ کا ارتکاب کر بیٹھے؟کیا یہ قول محال اور paradox نہیں ہے؟
براہ کرم مفتی صاحب آپ اس کی حقیقت بیان کردیں نوازش ہوگی.ہم تو طالب علم ہیں جب سے سنے ہیں حیران ہیں!وضاحت فرما دیں آپ کو اللہ جزایے خیر دیے گا.
آپ کے لیے دعا گو عاطف سہیل طالب علم جماعت پنجم عربی گجرات
========================
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ!آپ نے جو کچھ ارسال کیا ہے،وہ اپنے اسلوب و بیان میں نیا ہوسکتا ہے البتہ اس بیانیہ {narrative}کے مقصد و منشأ میں کویی نیا پن اور جدت نہیں ہے.
آپ حیران قطعاً نہ ہوں،قرآن کے نام نہاد عقلمند منکر{So called rationalist negator} ہر دور میں عقلی طور سے انکار کے وجوہات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے رہے ہیں.آپ جب آیندہ تفاسیر کی امہات الکتب کا مطالعہ کریں گے تو اس کی حقیقت عیاں ہوگی!
راقم کو آپ نے اس لائق سمجھا یہ آپ کا حسن ظن ہے.جزاکم اللہ خیرا وأحسن الجزاء!
____
آییے سائل نے جو کچھ اپنے طور سے تضاد {contradiction} کی بابت کہا ہے.ہم پہلے اسے اپنے مدرسے کے نصاب میں داخل فن منطق کی روشنی میں حل کرتے ہیں.
آپ نے پڑھا ہوگا کہ منطق(Logic) میں تناقض و تضاد (contradiction) کے اثبات کے لیے آٹھ شرطیں حکما و مناطقہ نے بیان کی ہیں.جسے کسی شاعر نے فارسی کے اس شعر میں بیان کردیا ہے.
در تناقض ہشت وحدت شرط داں
وحدت موضوع و محمول و مکاں
وحدت شرط و اضافت جز و کل
قوت و فعل است در آخر زماں
یعنی ان آٹھ چیزوں میں جب اتحاد ہوگا تبھی اجتماع ضدین ہوگا،جو کہ محال اور paradox ہوسکتا ہے،اگر ان میں اتحاد کی جگہ اختلاف یعنی الگ الگ موضوع و منشا کی بات ہو تو وہاں تضاد یا تناقض نہیں بلکہ اثبات مدعا ہوگا.
پیش کردہ قرآنی آیات مقدسہ میں تو کہیں بھی دور دور تک 'اتحاد موضوع یا اتحاد بیان' نظر نہیں آرہا ہے،یعنی پہلی آیت میں جس چیز کی نفی ہے،اگلی آیت میں عین اسی چیز کا اثبات ہے،ایسا کسی بھی زاویے سے نظر نہیں آرہا ہے.جن کو نظر آرہا ہے وہ ان کا قصور فہم و نظر ہے.اللھم احفظنا منہ!
آپ خود دیکھ لیجیے کہ کفار وقت و کم دماغ سرداران نے جن بوجھ کو اٹھانے کی بات کہی تھی،آخر اس کا مقصد کیا تھا؟وہ اس نسبت و اضافت (reference) سے کیا کہنا چاہتے تھے؟
وہ یہی کہنا چاہتے تھے نا کہ تم ہمارے راستے پر چلو!بعد مرگ کچھ نہیں ہونے والا!کچھ ہوا تو وہ ہمارے سر!تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں گویا تم 'چِنتا مُکت' رہو! تمہیں کچھ نہیں ہونے والا!
قرآنی آیات مقدسہ نے اس پس منظر اور نسبت و اضافت(refrence) سے پیدا شدہ منشا و فلسفہ کی بھرپور تردید کی اور کہا کہ ایسا نہیں ہوگا،بلکہ جس نے 'اندھ بھگتی' اور 'بدھی برھشٹی' کا ثبوت دیا،تو اسے اس کا انجام بد بھگتنا ہوگا.
چناچہ انہی آیات کے سیاق و سباق{CONTEXT} کو آپ دوبارہ دیکھ لیں ان میں ماں باپ و بڑے سرپرستوں کے ساتھ جہاں حسن سلوک کی تاکید ملتی ہیں وہیں کفر و شرک پر انکی بات نہ ماننے کی ہدایت بھی موجود ہے،گویا اپنے عقل و دانش کو کام میں لاکر حق و باطل کی پہچان ایک انسان کی پہلی ضرورت قرار دی گیی ہے.ورنہ انجام بد سے دوچار ہونا ہی ہونا ہے.
تو قرآن نے آیت نمبر ١٢ میں یہی واضح کیا ہے کہ وہ اس طرح بوجھ کہاں اٹھانے والے کہ انکے بہکاوے میں آنے والے کی ساری مصیبت یہ اپنے سر لے لیں اور بہکنے والے بالکل بری قرار پائیں.ایسا نہیں ہونے والا یہ جھوٹ بولتے ہیں.
جب کہ آگے آیت نمبر ١٣ میں ان بہکانے والے کو یہ کہکر متنبہ کیا گیا ہے کہ عقل سے کام لو! کیوں یہ واہی تباہی کا سامان کر رہے ہو؟کل مرنے کے بعد اپنے بوجھ کے ساتھ اپنے جرم(کسی کو بہکا کر غلط راستے پر لگانے)کے بقدر اضافی بوجھ بھی تمہیں اٹھانے ہونگے!ابھی بھی وقت ہے راہ راست پر آجاو!یہ عین عقل و منطق{logically parameter} کے مطابق ہے.
خلاصہ یہ کہ سرادرن کفار کا کہنا تھا کہ تمہیں ہماری ماننی ہے،ہم تمہارے ضامن {Guarantor} ہیں.تمہیں بے فکر رہنا ہے.جو ہونا ہوگا وہ ہمارے سر ہوگا، قرآن نے کہا کہ نہیں!یہ بالکل جھوٹ ہے!ایسا نہیں ہونے والا.بہکانے والے اور بہکنے والے دونوں قصور وار ہیں سزایاب دونوں ہی ہونگے!البتہ بہکاوے والے جرم کے بقدر اضافی بوجھ تلے دبے ہونگے!
اس وضاحت کے بعد دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں 'موضوع' بالکل ایک و متحد نہیں ہے،نہ 'نسبت و اضافت' ایک ہیں،جس کے بنا پر 'اتحاد موضوع' اور پھر 'تناقض و تضاد' کا قلعہ تعمیر ہو اور قرآن میں منطقی تضاد{contradiction}کا شور مچاکر بھولے بھالے انسان کو اس سے منحرف کرنے کے لیے میدان ہموار کیا جایے.
امید کہ اس وضاحت سے آپ پر معترض کے اعتراض کی حقیقت عیاں ہوجایگی ان شاء اللہ!
دیگر اہل علم و اساتذہ سے بھی آپ رجوع ہوں اور قرآن میں علمی و فنی اعتبار سے روزانہ غور و فکر کی عادت بھی ڈالیں.
دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
16/02/2021
+919006607678
+919122381549
mtbadr12@gmail.com
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںبہت بہتر
شکرا جزيلا اخی الکریم!
حذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںVery nice
جواب دیںحذف کریں