کسان تحریک کیا ہے؟ توقیر بدرالقاسمی

کسان تحریک کو مضبوطی فراہم کیجیے،یا پھر بڑی قیمت چکانے کو تیار رہیے!


دنیا جب سے بنی ہے تب سے اب تک سبھی دانا سے لیکر عامی تک اس بات سے عملا گزرتے رہے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی بیماری اور وائرس جو ہے وہ ہے "بھوک" جس کا ویکسن "اناج" اور 'غلہ' ہی ہے،جو کسانوں کی محنت سے سبھی کے گھر چولہے و دسترخوان تک پہونچتا ہے


افسوس آج کی سرکار اس "ویکسن فراہم کنندہ بے چین و مضطرب کسان" کو عجیب و غریب قانونی داؤ پیچ کے کھیل میں الجھا کر ملک و سرحد کے محافظ پولیس و جوانوں کے حوالے کربیٹھی ہے اور آرام سے غیر ضروری سیاسی ریلیاں کرنے میں مشغول ہے.

کسے علم نہیں کہ آج جن باتوں کو لیکر کسان مضطربانہ سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں، اگر بروقت سرکار نے اس کا ازالہ نہیں کیا تو آنے والے دنوں میں ہر کویی بطور خاص غریب و پسماندہ طبقہ اس کا شکار ہوگا.


حالات پر عقابی نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ گزشتہ سال جون میں پیش کردہ آرڈیننس سرکار کی طرف سے اس وقت ٹیبل ہوا،جب ساری دنیا کورونا کی مہاماری سے جوجھ رہی تھی،ملک کا GDP نیچے جا رہا تھا،ملکی معیشت تہ و بالا ہورہی تھی،ایسے میں کسانوں اور ہر مہذب شہری کا یہ سوال بجا تھا اور ہے کہ اس وقت ملکی عوام کی صحت و معیشت کو سنبھالا دینے کے بجائے آخر اس آرڈیننس کی ایسی کیا ضرورت پیش آگیی،جس میں تین تین بل،کسان اور سبھی دیش واسیوں کے خلاف پیش اور پاس کیا گیا؟ کاش وقت رہتے حکومت کی طرف سے اس پر کان دھرا جاتا تو آج اتنے کسان اپنی جان سے اس طرح ہاتھ نہ دھوتے!

 زرعی و قانونی ماہرین کے بقول بھلے ان تینوں قانون میں سے پہلا قانون اس بات کا عندیہ دیتا ہے،کہ کسان آزاد ہے،اسے خود مختار بنایا جارہا ہے،کہ وہ جب چاہے جس سے چاہے،اچھی قیمت دیکھ کر وہ اپنا اناج بیچ سکتا ہے،بس قدرتی آفات اور حالات جنگ اس سے مستثنٰی ہونگے،مگر حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کی آڑ میں سن 1955 میں جس جمع خوری اور کالا بازاری پر قانون بنا کر قدغن لگایا گیا تھا،وہ کالعدم ہو رہا ہے،کیونکہ نہ تو کسانوں کے پاس گودام ہیں اور نہ وسائل کہ وہ زیادہ دیر تک اپنے غلے رکھ سکیں گے،ہاں بڑے بڑے ساہوکار اور آڑھتی ان کسانوں سے اونے پونے میں اناج لیکر جمع خوری اور کالا بازای کریں گے اور بیجا قلت و قحط کا ہواّ کھڑا کرکے اس سے ناجائز فایدہ اٹھائیں گے،عوام کے جیب پر اس سے نہ صرف اضافی بوجھ پڑیگا بلکہ یہ کسی قانونی لوٹ سے کم نہ ہوگا،جس کا راست اثر پورے باشندگان ملک پر پڑیگا،اور یہ احتکار کنندہ جمع خور آڑھتی اس قانون کے آڑ میں بآسانی بچ نکلیں گے،اس کے ساتھ ساتھ دوسرا قانون بھلے کسان کو کمپنیوں سے وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے پیش بندی کے طور پر کنٹریکٹ اور معاہدے کی گنجایش فراہم کرتا ہے،تاہم اس میں بھی کافی جھول ہے،سوال یہ ہے کہ بروقت اگر طرفین یعنی کمپنی/ کسان، میں سے کسی نے وقت پر مخالفت کردی اور کنٹریکٹ توڑ دیا تو اس کا بھرپائی کیوں کر ہوگی اور کیسے ہوگی کون کریگا؟ بطور خاص اس وقت جبکہ ایسا کرنے والی فریق مضبوط مالدار کمپنیاں ہونگی تو کیا بازار سمیتی کے آفیسر انکو جواب دہ بنا پائیں گے؟ کیا وہ بروقت کسانوں کی اشک شوی کرپائیں گے؟ اس بابت میرے خیال سے اس قانون میں گاؤں کے مکھیا سے لیکر علاقائی ایم ایل اے ایم پیز تک کو قانونا کسان کی طرف سے نمایندہ بنایے جانے کی تجویز ہونی چاہیے،تاکہ طوطا چشمی دکھاتے وقت انہیں کسان انکی اوقات بتاسکیں،اسی طرح تیسرا قانون جو MSP کو لیکر ہے،اور کسان آج اس پر زیادہ حساس بنے ہویے ہیں،یعنی کم سے کم ایک معیاری معاون قیمت سرکار بطور تحفظ کسانوں کو اب تک دیتی آئی ہے،اسے موثر اور پائیدار بنایا جانا چاہئے،نہ کہ اسے ختم یا کالعدم و غیر موثر کرنے کی طرف سرکاری اقدامات کی جائیں، بدقسمتی آج آرڈیننس و بل پیش کرکے انہیں غیر موثر ہی کرنے کی کوشش ہوئی جسے کسان کسی صورت ماننے کو تیار نہیں ہیں!

آج ملک بھر کے کسان بالخصوص ہریانہ و پنجاپ کے کسان انہی خدشات کو لیکر سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں کہ ہمیں MSP کا تحفظ ہر حال میں فراہم کیا جایے.جبکہ سرکار حیلے بہانے کرکے اس سے کترا رہی ہے،وہ کبھی کہتی ہے کہ ہم کسان سے مہنگا غلہ خرید کر راشن کارڈ ہولڈر کو کم قیمت دینے پر مجبور ہیں، اس سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑ رہا ہے،اسی کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس کسانوں سے اناج لیکر رکھنے والے گودام نہیں ہیں،FCI کے گودام تنگ پڑ رہے ہیں،اناج سڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ! 

جبکہ ایسی صورت میں ہر ہندوستانی کا سرکار سے سوال یہ ہونا چاہیے کہ یہ بوجھ اس وقت نہیں کیوں دکھائی دیتا،جب ہزار ہزار کروڑ کا گھپلہ کرکے بھاگنے والے ملک سے فرار ہوجاتے ہیں اور پھر ان کو NPA کے نام پر معاف کردیا جاتا ہے؟آخر کیوں؟ اسی طرح گودام کی تنگی کا رونا رونے والے تو آج کے ہائی ٹیک زمانے میں نالے سے گیس نکالنے کا راستہ سجھانا نہیں بھولتے،اس ضروری کام پر انکو یہ تکنیک کیوں نہیں سوجھتا؟یہی نہیں ہزاروں ہزار ایکر میں انکو ڈی ٹینشن کیمپ بنانے کی فرصت مل جاتی ہے،تو وہ یہ ہای ٹیک گودام کیوں نہیں بناپاتے؟ 

حاصل کلام یہ کہ آج کسان تحریک کو ملک کے کونے کونے سے مضبوطی فراہم کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ Demonization نوٹ بندی، GST, FDI کی طرح یہ قانون بھی سبھی کے لیے بھاری قیمت چکانے کا سبب بن جایگا. 

اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی احکامات و انسانی سہولیات بھی ہمارے ذہن میں تازہ رہے. مذکورہ خرابیوں کے پیش نظر ہی اسلام نے احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی اور کالا بازاری کو نہ صرف ممنوع قرار دیا بلکہ اسے روحانی طور پر بے برکتی کا سامان قرار دیکر ایک محفوظ راستہ فراہم کیا. 

ابھی بھلے سرکار اپنی ضد پر اڑی ہویی ہے، تاہم یہ ملک جمہوری ہے.اس میں عوام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے. اگر کسان و عوام بھی یونہی ڈٹے رہے تو سرکار کو دیر سویر آج نہیں تو کل اس کو واپس لینے ہی ہونگے! 


توقیر بدر القاسمی ڈائریکٹر المرکز العلمی للافتا والتحقيق سوپول دربھنگہ انڈیا 

+919006607678 


تبصرے