کیا اسلام میں زکوٰۃ گداگری کو فروغ دیتی ہے؟ توقیر بدرالقاسمی


 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب ہمارا ایک دوست ہے ان کا کہنا ہے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام نے جہاں کافی اچھی اچھی باتیں بتای ہیں وہیں کچھ باتیں عجیب سی بھی لگتی ہے، وہ کہتا ہے کہ زکوٰۃ کو ہی لے لو اسلام نے اسے اختیاری نہ رکھ کر جبری لازمی فرض عین قرار دیا ہے.جبکہ اسے اختیاری {optional} ہونا چاہیے.ہر انسان کی اپنی اپنی ضروریات ہوتی ہیں. انہوں نے کہا اس طرح کا قانون کہیں نا کہیں بھیک مانگنے والے پیشے و گداگری کی حوصلہ افزائی کا بھی باعث بنا کرتا ہے جبکہ مہذب معاشرے میں اس کی قطعا گنجایش نہیں ہونی چاہیے!
ایک دوست کے توسط سے آپ کا نمبر ملا.اس لیے آپ تک یہ پہونچا رہا ہوں براہ کرم وضاحت فرمائیں اور یہ بتائیں کہ انکی باتیں کس حد تک درست ہیں.
آپ کا ایک دینی بھائی.........بھوپال
____________________________
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
بلاشبہ اسلام نے اچھی اچھی باتیں ہی بتائی ہیں زکوٰۃ بھی انہی اچھی باتوں میں شامل ہے.
ان کا اعتراض اگر فرضیت زکوٰۃ پر ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے ساتھی اور ان سے کہنے والے نے جتنی باتیں کہی ہیں وہ سب آپس میں گڈ مڈ ہوکر انکی عقل ناقص اور مطالعہ کاذب کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں. اور اگر" اختیاری" سے مراد ادا کرنے والے کا ایسا اختیار ہے کہ وہ جس کو مناسب اور ضرورت مند سمجھے اسے دے، تو اسلام تو اسکی نہیں صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اسے عبادات قرار دیکر اسے اس کی تاکید کرتا ہے کہ درست اور مناسب جگہ پر اسے پہونچا دو! یہی وجہ ہے کہ نامناسب جگہ پر عدم ادائیگی کا حکم لاگو ہوتا ہے.

فرضیت زکوٰۃ پر اعتراض کی صورت میں چند پہلو سے چند باتیں عرض ہیں!
سب سے پہلے تو یاد رکھیں کہ جو مسلمان اور مومن صادق ہیں انکے لیے کسی بھی حکم کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کے لیے جو ماخذ علم اور علمیات {Epistemolog} ہیں وہ عقل، حواس اور مخبر صادق علیہ السلام کے توسط سے ملی وحی و سنت ہے.جبکہ جو لوگ مادہ پرست {Matterialist} ہیں انکے یہاں مادہ اور اسکی علت و معلول{Cause & effects} ہی سب کچھ ہوتے ہیں عقل و وحی سے ان کا کویی واسطہ نہیں!

لہذا علمی و دینی حکم کے حوالے سے یاد رکھیں کہ زکوٰۃ یہ ایک دینی رکن ہے،جو صاحب استطاعت پر ہی ڈھائی فیصد یا پیداوار میں دسواں یا بیسواں حصے کی شکل میں فرض کی گیی ہے،اور ضروریات و حاجت اصلیہ سے زائد ہونے کی صورت میں ہی یہ رکھی گئی ہے،یہ امارت اسلامیہ کے بیت المال میں جمع ہوکر معاشرے کے لئے وہی سارے امور انجام دینے میں معاون ہوتی ہے،جس کا تعلق انسانیت کی فلاح و نجاح سے ہے،یہ ہر فرد و شخص پر نہ تو فرض ہوتا ہے کہ اسے "جبری" کہا جایے اور ضروریات کا بیجا رونا رویا جایے اور نہ ہر کہ و مہ سے اس کا تعلق ہے،کہ جہاں تہاں جیسے تیسے اسے خرچ کیا جائے اور فروغ گداگری کا اس پر الزام دھرا جایے!
قرآن و سنت میں ان پہلوؤں کو واضح کرکے بیان کیا گیا ہے!

عقلی پہلو سے عرض ہے کہ بلاشبہ "گداگری کا پیشہ" یہ مہذب معاشرہ قبول نہیں کرسکتا،تاہم سوال یہ ہے کہ اسکی نوبت آتی کیوں ہے؟سائل ہی بتایے کہ اس کے پاس اس کو ختم کرنے کا کیا فارمولہ ہے؟ کہیں وہ" غریبی ختم کرنے کی آڑ میں غریبوں کو ختم کرو" والے مادی فلسفے سے متاثر تو نہیں؟
سائل کو چاہیے کہ عوام پر حکومت کی طرف سے جو ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں اس پر پہلے توجہ دے.یہ طرح طرح کے نام و عنوان سے عائد ہوتے جو فقط ڈھائی فیصد ہی نہیں،بلکہ بسا اوقات اس سے بیس بیس گنا زائد ہوتے ہیں!
أن سے سوال یہ بھی کیجیے کہ کیا اس جبری ٹیکس وصولی کو وہ عوام میں حکومت کی طرف سے گداگری کو فروغ دینے والی کوشش کہہ سکتے ہیں؟سبھی جانتے ہیں کہ موت متعین ہے، پھر بھی سرکاری نمایندہ اور بڑے افسران حفاظتی دستے کے حصار میں رہ کر عوام پر بوجھ بنتے ہیں، تو کیا اسکو بزدلی اور ڈر و خوف کو عوام میں فروغ دینے کا پہل کہہ سکتے ہیں؟
عقلی لحاظ سے مزید سوچیے کہ کیا معاشرے میں اپاہج اور معذور نہیں ہوتے؟ کیا یتیم بیوہ عنقا ہوگیے ہیں؟ کیا دوران سفر میں ناگاہ لٹا ہوا انسان سامنے نہیں آسکتا؟ کیا سیلاب و آتش زنی یا دیگر حادثات و فسادات کے نتیجے میں منٹوں میں ایک لاکھ پتی،خاک پتی ہوکر فقرا و مساکین کے زمرے میں نہیں آجاتا؟ آیا ان جیسوں کے لیے ایک مدد رساں ادارہ نہیں ہونا چاہیے؟ وہ معترض اگر انسانی دل رکھنے والا انسان ہوگا تو مدد رساں ادارے کا قائل ضرور ہوگا. اسلام میں اسی مدد رساں ادارے کو 'زکوٰۃ' کہا جاتا ہے.

رہ گیی بات گداگروں کی تو دنیا پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ نگار کو پڑھیے وہ یہ بھی بتائیں گے کہ جس معاشرے میں زکوٰۃ پابندی سے ادا کی جاتی ہے وہاں حالات سے مجبور انسان چوری ڈکیٹی کی راہ نہیں اپناتا آج بھی اسلامی ممالک و معاشرے اور دیگر ممالک و معاشرے کو اس پس منظر میں پڑھ سن سکتے ہیں.
وہاں انسان مزید ضرورت کے وقت صدقات نافلہ دینے والے اور داد و دہش کرنے والے کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنی ضروریات رکھکر اپنا کام نکال سکتا ہے ڈاکہ نہیں ڈال سکتا!

ہاں اگر کویی اس کو اپنا پیشہ بنالے اور صحت مند ہوکر بھی اسے کمائی کی جگہ گداگری ہی موزوں نظر آیے، تو اس میں اسلام کا قصور ہرگز نہیں،بلکہ اس پیشہ ور گداگر کا اپنا قصور ہے.اسلام اس کی ہرگز حمایت نہیں کرتا!خلفایے اسلام ایسوں پر نگاہ رکھتے رہے ہیں اور انکی خبر لیتے ہوئے اصلاح کرتے رہے ہیں تاریخ میں اسکی مثالیں موجود ہیں.

امید کہ آپ زکوٰۃ کی حقیقت اور گداگری کی اصلیت اور ان میں فرق سمجھ گیے ہونگے!
دعاؤں میں یاد رکھیں!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+919006607678
+919122381549
mtbadr12@gmail.com

تبصرے