کیا مسلم قوم بھکمری کا شکار ہے؟ توقیر بدرالقاسمی
مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ہماری ایک بچی ہے، اسے کسی نے اسکے اسکول میں کہا کہ تمہارے مسلمانوں میں غربت{poorness}بہت ہے.کافی بھکمری ہے،جب کہ تمہارا عقیدہ تو یہ ہے کہ "رزق کی ذمہ داری اللہ تعالی کی ہے" تو پھر اس کے ماننے والوں کے ساتھ ایسا کیوں؟
اس نے مجھ سے سوال کیا سمجھانے کی کوشش کی اور اسکے اعتراض {objection}پر ہم نے غور کیا تو اس کا واضح جواب سمجھ میں نہیں آیا،کیونکہ دیکھنے میں تو یہ آتا ہے کہ بہت سارے لوگ رزق نہ ہونے کے وجہ سے مر رہے ہیں اور ہماری قوم میں بھکمری بھی ہے؟؟
براہ کرم آپ اسکی وضاحت فرما دیں عنایت ہوگی!
ایک خاتون کا سوال
________
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اعتراض کرنے والے معترض نے "عدم رزق" اور "بھکمری" کو قوم مسلم سے وابستہ کرکے ایک غلط مفروضہ و مقدمہ {premise} قائم کیا، پھر دوسرا مفروضہ و مقدمہ یہ کہ اسکا ذمہ دار رب کائنات ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچے کے ذہن کا الجھ کر رہ گیا.اور بقول آپ کے آپ بھی کنفیوزڈ ہوگییں!
چلیے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قبل ہم بھی کچھ سوالات سامنے رکھتے ہیں.
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مسلم قوم کے افراد فقط اسی اسکول یا سائل و مجیب کے علاقے تک ہی محدود ہیں،یا پھر دنیا بھر میں یہ قوم اپنا وجود رکھتی ہے؟
ظاہر ہے کہ یہ آج دنیا کے ہر خطے میں پائی جاتی ہے. اور ان سب کا یہ لازمی عقیدہ ہے "محنت بندے کی اور رزق اللہ کی" تو کیا ان سبھی جگہوں پر بھکمری ہی بھکمری ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسکا اعداد و شمار پیش کیا جایے!
اسی کے ساتھ ساتھ عرب ملکوں میں ملازمت کی غرض سے ترک وطن کرکے جانے والے ان غیر مسلموں کے اعداد و شمار بھی سامنے رکھے جائیں!جو اپنے ملک میں غربت سے تنگ تھے.
خود ملک عزیز میں غربت سے بھک مری، تنگ دستی کی وجہ سے جہیز کی عدم دستیابی اور علاج کی نافراہمی سے اموات کی کیا شرحیں ہیں اور کس کس قوم میں کتنا ہے؟
اس کے بعد کسی نتیجے پر پہونچا جایے تو یہ درست علمی رویہ {rational approach}ہوگا.
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا رب کائنات فقط روزی فراہم کے ہی مالک ہیں یا زندگی و موت دینے والے بھی وہی ہیں؟
ظاہر ہے کہ جس طرح مسلم قوم کے اس عقیدے کو پیش کیا گیا ہے کہ وہ فراہمی رزق کا ذمہ دار اپنے رب کو مانتے ہیں،تو سایل کو اور مجیب کو یہاں چاہیے کہ وہ یہ عقیدہ بھی سامنے رکھے کہ زندگی دینا اور موت سے ہم کنار کرنا بھی اسی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے.
ایسا ہرگز نہ سمجھا جائے کہ وہ فراہمی رزق کا وعدہ کرکے اسے پورا کرنے میں ناکام رہا اور انکا کویی حریف آکر وعدہ اسے وفا نہ کرنے دیا اور اسکے بندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا! اور اس طرح وہ عاجز رہا!
آپ خود بھی سمجھیں اور اپنی بچی کو سمجھا دیں کی بے شک ہمارا یہی ایمان ہے اور ہونا چاہیے کہ رزق کی ذمہ داری اللّہ کی ہی ہے،البتہ اسکی فراہمی کے لئے اللہ رب العزت نے کیی سارے قوانین بنائے اور اسے اپنانے کہا.
یعنی اس نے ہمیں حکم دیا کہ بندو محنت کرو! عبادت کے بعد رویے زمین پر اپنی تلاش معاش کے لیے پھیل جاؤ! ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرو، نقصاندہ ذخیرہ اندوزی سے بچو!غریبوں تنگ دستوں اپاہجوں کا پورا پورا خیال رکھو!پوری کوشش کرو حلال رزق کماؤ میں اس میں برکت میں دونگا!
ظاہر سی بات ہے کہ اگر قوم مسلم ان امور سے روگردانی کریگی تو اسے پھر انکے بنایے ہویے قانون کے مطابق بھکمری کا بھی شکار ہونا پڑیگا.
آپ خود سوچیے اگر آپ کےسامنے کھانا رکھ دیاجائے اور کہا جائے بنا چھوئے اور منھ کھولے کھانا نہیں ہے،تو کھانا کھا پائیں گے؟یقینا آپ نہیں کھا سکتے،بلکہ اس کے لئے آپ کو اور آپ کے ہاتھ و منھ کو محنت کرنا ہی ہوگی تب ہی کھانا کھانا ہوگا.
اسی طرح رزق کی زمہ داری سے مراد اور سنت اللہ یہ ہے کہ اللَّهُ نے ساری مخلوق کا رزق پیدا کیا ہے،زمین میں اتنی صلاحیت رکھی گئی ہے کہ وہ بندے کی محنت و لگن پر ساری مخلوقات کا رزق مہیا کر سکتی ہے.لہذا محنت و ایمانداری سے اسے حاصل کرنا ہی ہوگی!ورنہ نتیجہ بھکمری کا ہی ہوگا!
دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو لوگ بھوک سے مرتے ہیں وہ یا تو اپنی کم ہمتی اور نادانی سے بھوکوں مرتے ہیں یا پھر صاحب سرمایہ کی غلط پالیسی، رزق کی نامنصفانہ تقسیم اور اس پر انکے ناجائز کنٹرول کے نتیجے میں اموات ہوتی ہیں.اسکے ذمہ دار یہ خود ہوتے ہیں!
مثال کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسی زمین پر بسنے والے افریقہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں،تو وہیں امریکہ میں فالتو گرانی و مصنوعی قحط دکھانے کے واسطے گندم سمندر میں غرق کر دی جاتی ہے.
اسکے علاوہ اپنی بچی کو یہ بھی بتائیں کہ اس دھرتی پر تو بظاہر رزق نہ ملنے سے موت کو لیکر سائل نے اعتراض کردیا، مگر کبھی اس نے اور آپ نے یہ سوچا کہ اس دھرتی پر آنے سے قبل انسانوں کو انکی ابتدائی مرحلے میں رزق ماں کے پیٹ میں کون دیتا ہے،پھر والدین چھوٹے بچے کو پالتے ہیں اسکی محبت انکے دلوں میں ودیعت کون کرتا ہے؟بڑھاپے میں اولاد ماں باپ کا خیال رکھتی ہے.یہ عزت وعظمت انکے قلوب میں کون الہام کرتا ہے؟کیا کسی طبعی و سائنسی قوانین سے اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے؟ یا الہامی و آسمانی کتابیں ہی اس کا جواب دیتی آیی ہیں؟
آخر یہ سب رزق و انعام کون عطا کر رہا اور سارے نظام کون چلا رہا ہے؟ظاہر ہے یہ سب کچھ عطا کرنے والی اور دینے والی ذات وہی رب کائنات ہے،جس پر اس بچی کو قوم مسلم میں بھکمری کا راگ الاپ کر کنفیوزڈ کیا گیا ہے.
اس سلسلے میں ہمارے بلاگ nur-w-shawoor.blogspot.com پر دیگر اور بھی مضامین مل جائیں گے انہیں دیکھ سکتی ہیں!
امید کہ آپ اب اپنی بچی کو سمجھا سکیں گی!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
+919006607678
+919122381549
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں