خدا کا وجود اور دلائل و حقائق:مفتی توقیر بدر القاسمی
خدا کا تعارف
مفتی توقیر بدر القاسمی صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ امید کرتا ہوں کہ آپ خیر وعافیت سے ہونگے!
رد الحاد کے سلسلے میں آپ کی تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا رہتا ہے. اسی سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ایک اعتراض objection ملاحدہ وجود باری تعالٰی {existence of God}کے متعلق یہ کیا کرتے ہیں کہ تمہارے خدا نے اپنی موجودگی کا ذکر اور تفصیلی تعارف {completely introduction}تو قرآن میں کرایا نہیں اور تعریف{Praise} شروع کردی اور حمد و تعریف کرنے کی اپنے بندوں کو تلقین کردی،کیا بھلا کسی کو جانے پہچانے اور اسکی موجودگی کا احساس کیے بغیر اسکی تعریف ممکن ہے؟تو ایسے سوال کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟براہ کرم اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں!نوازش ہوگی.
جزاکم اللہ خیرا
محسن ذکی پونے مہاراشٹر
=================
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
الحمدللہ سب خیر و عافیت سے ہیں.دیکھیے راقم کسی کا رد{Rejection}نہیں کرتا البتہ امر بدیہی {Intuitive} کا بھی جب کوئی انکار کرتا ہے،یا سطحی قسم کا اس پر اعتراض کرتا ہے تو اسکے اثبات کا اظہار کردیا کرتا ہے،یا اسکی سطحیت{superficiality}اجاگر کرنے کے لئے اپنا مطالعہ پیش کردیتا ہے،اب اس ضمن میں کسی کا رد ہوجاتا ہو،تو یہ اور بات ہے.
اہل علم کی موجودگی میں مجھ کم علم کو اس لائق سمجھا تو مطالعے کی روشنی میں عرض ہے کہ ملاحدہ بیچارے جو اعتراضات{objections}کیا کرتے ہیں،وہ اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں،اب اسی مذکورہ بالا سوال کو ہی لے لیجیے کون نہیں جانتا کہ خدا کا وجود ایک امر بدیہی {intuitive}ہے،اسکو متعارف کروانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے،ورنہ اصولا یہ 'بدیہی' (ادنی غور وفکر سےسمجھ میں آنے والی بات) کو 'نظری'(تفصیلی دلیل و حجت کا محتاج) بنانا ہوگا اور یہ ماہرین کے نزدیک معیوب{Indecent}ہے.
اگر یہ اعتراض کرنے والا معترض پڑھا لکھا انسان ہو تو اسے ارسطو کی پیش کردہ علتوں{causes}کا مطالعہ کرنے کہا جایے،ان میں علت فاعلی{Efficient Cause}کیا ہے اس کو سمجھنے کی دعوت دی جایے.ممکن ہے وہ رب کائنات تک اس راستے پہونچے،ان سبھی کی تفصیلات ارسطو نے "میٹافزکس" میں اچھی طرح سے پیش کی ہیں.منطق{Logic}کے طلبہ اس سے واقف ہوتے ہیں.
کائنات اور خالق کائنات
خلاصتا عرض ہے کہ کیا کاینات اور خود ذات انسان،رب کائنات کی وجود پر دال نہیں؟ایک انسان اپنے ارد گرد کے سبھی اشیائے موجودہ کے لیے اسکے موجد کا قائل بنا دیکھے ہوا کرتا ہے.تو کیا یہ کاینات اور اسکی ذات بنا اسکے خالق{creator}کے وجود میں آسکتی ہے؟اور بدیہی کیا تفصیلی تعارف کا محتاج ہوتا ہے؟
خود معترض اپنی امی کو "امی" بچپن سے ہی،ہر خطاب کے وقت کہتا آرہا ہوگا اور اس نے اپنی امی کے 'متعارف' کروانے پر اسکو موقوف نہیں رکھا ہوگا.
بدیہی چیزوں کو مزید اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ہم آیے دن دیکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر فقط یہ تجویز{prescribe} کرتا ہے کہ فلاں دوائی فلاں کھانے کے بعد لینی ہے.وہ کھانے کا تعارف یا اسکی وضاحت اسکی بداہت کی وجہ سے بالکل نہیں کرتا،تو کیا کویی دانشور وہاں یہ اعتراض{objection}کرسکتا ہے کہ ارے ڈاکٹر بڑا عجیب ہے،پہلے کھانے کو تو متعارف کروایا ہی نہیں،سیدھے اسکے بعد دوائی کھانے کی ہدایت{Direction}دے رہا ہے.
اس نکتے کی وضاحت کے ساتھ ساتھ انکے اعتراض پر دھیان دیجیے تو معلوم ہوگا کہ معترض "تفصیلی تعارف" کا منکر ہے،اسکا مطلب یہ ہوا کہ اجمالی تعارف" کا قائل وہ بھی ہے،تو اب سوال اسی سے کیجیے کہ کیا "اجمالی تعارف" تعریف کے لیے کافی نہیں ہوسکتا؟ آخر کس قاعدے اور ضابطے کی رو سے یہ ممنوع ہے؟
کیا فلسفیانہ نقطہ نظر سے لا محدود ذات کا تعارف تفصیلی ممکن ہے؟ جنکی ذات کو سارے مناطقہ و فلاسفہ" لا یحد و ولا یتصور "کہتے ہیں،اکبر نے جنکی بزبان شاعری بڑی دلنشیں وضاحت کی ہے.
جو ذہن میں گھرِ گیا ، لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
کیا یہی معترض اس تفصیلی تعارف پر پھر اعتراض نہ کرتے؟
کیا "الحمد للہ رب العالمین " میں اسے فقط تعریف اور اسکی تلقین ہی نظر آرہی ہے.اس سے پوچھیے "اللہ رب العالمین" یہ تعارف نہیں ہے تو آخر کیا ہے؟
البتہ 'الحمد' پہلے اور 'رب العالمين' بعد میں کیوں ہے تو یہاں بس اتنا یاد رکھیے کہ ایک شکر گزار و قدر دان اپنے محسن کے سامنے انکے احسان ناشناس و احسان فراموش کو جس لب و لہجے میں انکا قائل کرا سکتا ہے،اس کے لیے اس سے بہتر اسلوب نہیں ہوسکتا!
بطور تمثیل{for example}عرض ہے،فرض کیجیے آپ کے فرزند کے سامنے انکا استاذ آجایے اور وہ سلام نہ کرے تو آپ اس وقت کیا کہتے ہیں یہی نا کہ "بیٹا سلام کیجیے یہ آپ کے استاذ ہیں انکی محنت و برکت سے آپ آج اس لائق ہیں" ظاہر ہے یہاں "سلام" ترتیب میں پہلے ہی آیگا اور تعارف و تفصیل بعد میں!
اس لیے ایسے اعتراضات کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، رب کریم کا وجود و و تعارف بدیہی ہے.انکا تعارف بھی قرآن میں موجود ہے اور قرآن کا اسلوب بھی فطری و حقیقی ہے.
امید کہ آپ اعتراض کی حقیقت اور سطحیت{superficiality}کی وضاحت سمجھ گیے ہونگے.
دعاؤں میں یاد رکھیں!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
02/01/2021
ماشاءاللہ بہت خوب اب یہاں پر پڑھنے نا موقع ملے گا اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے آمین
جواب دیںحذف کریں