{فرشتے کی حقیقت} {عقلی مقدمات}


دسویں جماعت کی #طالبہ کا ایک سوال

السلام علیکم ورحمت الله وبرکاتہ!
حضور امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے!
حضرت ایک مسئلہ اس طرح ہے کہ میری اپنی ایک بہن ہے وہ بیس سال کی ہے،دسویں جماعت میں پڑھتی ہے،مگر حضور!اس نے گھر میں ایک سوال کھڑا کردیا ہے.اس کاکہنا ہے کہ الله تعالیٰ سب کچھ جاننے کےباوجود فرشتوں سے کام کیوں لیتا ہے؟ مجھے قرآن وحدیث کی روشنی میں اسکی عقلی ریزن {Rational reason}سمجھایا جائے!
حضرت آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ اس بچی کو اس دلدل سے نکالیں اور قرآن وحدیث اور عقلی مقدمات کی روشنی میں اس کا تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں!نوازش ہوگی!
مجھے آپ کا نمبر استاذ محترم مفتی عقیل الرحمان صاحب نے دیا ہے.
عارض نذیر احمد کشمیری مدرس ضیاء العلوم بارہ مولہ کشمیر

==========================
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ! رب کریم کا بے پایاں احسان و کرم ہے.
عقلی منطقی مقدمات

آپ کی بہن نے جو سوال کیا ہے،محسوس ہوتا ہے کہ یہ سوال کسی اور نے اسکے سامنے اسے زچ کرنے کے لیے رکھا ہے،اور سائل کا کام فقط قرآن و حدیث اور دینیات سے سیدھے سادے ایک کلمہ گو کو مشکوک{Doubtful}کرنا ہے.بڑے افسوس کے ساتھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انتہائی منظم طریقے سے آج کل یہ کام سوشل میڈیا کے توسط سے انجام دیا جارہا ہے.اللھم احفظنا منہ!
بہر کیف!آپ اپنی بہن کے سامنے چار مقدمات سامنے رکھیں!جن میں سے تین کو منطقی ترتیب کے لحاظ سے مقدمات{premises}جبکہ چوتھے کو نتیجہ {Result}کہہ سکتے ہیں!
اول :یہ کہ ایک طرف جہاں رب کائنات خالق{Creator} ہے،وہیں رب کے علاوہ ساری کاینات، انسان و جن، فرشتے و حیوانات، جنت و جہنم وغیرہ وغیرہ اسکی مخلوق{Creation}ہیں اور خالق کبھی بھی کسی مخلوق کا محتاج نہیں ہوتا، ہاں مخلوق ہر پل اپنے خالق کی محتاج ہوتی ہے.رب کریم نے کاینات و ذکر کردہ سبھی مخلوقات کی تخلیق اپنے فیصلے 'کن' سے انجام دیا ہے اور سبھی کام کو اسی طرح انجام دینے پر قادر ہے.وہ اپنے کام اور فیصلے میں قطعا کسی کا محتاج نہیں!
دوم:خالق کاینات رب کریم سب سے واقف، سب پر قادر، سبھی کا رزاق اور سبھی کو راہ راست دکھانے کے واسطے انہیں اپنی ہدایت اور حکم {Guidance & order }ا نبیاء و رسل کے ذریعے دیتا ہے.اس واسطے انبیاء و رسل کا سلسلہ شروع کیا.اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلہ کو اختتام{End up}بخشا!
سوم:رب کریم کی تخلیق میں یہ دن و رات،یہ موسم سرما و گرما بھی ہیں اور زمین و آسمان کا اپنے اپنے مدار پر تیرنا،انکا چکر لگانا اور گردش میں رہنا یہ سبھی رب کریم کے حکم کے ہی مظاہر و نتایج ہیں.اور وہ ان سب کی ایک ایک باریک سے باریک چال و رفتار اور حقیقت و ماہیت سے واقف ہے.
چہارم: فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں،جیسے انسان اللہ کی مخلوق ہیں،وہ بھی اپنے رب کے حکم کے پابند ہیں جیسا کہ حکم الٰہی کا مکلف انسان بھی ہے!
بس جو کچھ فرق قرآن و حدیث کی روشنی میں نظر آتا ہے،وہ یہی کہ فرشتے کی تخلیق نور سے تو انسان کی خاک سے،فرشتے کی تخلیق انسان سے پہلے تو انسان کی بعد میں، انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس سے سرتابی نہیں کرتے، جبکہ انسان کو اختیار و شعور کی روشنی میں کرنے نہ کرنے کی آزادی بطور آزمائش دی گئی!
سو فرشتے کبھی بھی اپنے رب کی تسبیح و تقدیس،انکی عبادت اور اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹتے،نہ اسکے خلاف جاتے ہیں،جبکہ انسان اپنے رب کا فرمابردار بھی ہوتا ہے اور نافرمان بھی!
فرشتے کی ذمہ داری اور انکا وجود کیا کچھ ہے، اسکے لیے قرآن و حدیث کا تفصیل سے مطالعہ کریں! معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں اسّی ٨٠/سے زائد مقامات پر ان کا تذکرہ موجود ہے،خود آپ عالم ہیں آپ جانتے ہیں کہ احادیث میں انکی ذمہ داریاں، عبادات اور تسبیح و تقدیس کی کیفیات ان سبھی کی تفصیلات موجود ہیں.
یہ فرشتے آسمانوں اور زمین میں بے شمار کاموں پر مقرر ہیں یہ انکی ڈیوٹی ہے،یعنی آسمان اور زمین کے انتظامات اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کے ذمہ کررکھے ہیں اور یہ فرشتے تمام انتظامات اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انجام دیتے ہیں یہ انکی 'عبادات' ہی کے قبیل سے ہیں۔
مثلاً اللہ تعالیٰ کے احکام کو ابنیائے کرام ؑ تک پہنچانا، اللہ تعالیٰ کے حکم سے سبھی جاندار مخلوق کی روزی روٹی اور بارش کا انتظام کرنا، نیک انسانوں کی حفاظت کرنا،سبھی انسان کی لمحہ بہ لمحہ کی ایک ایک تفصیلات و احوال لکھنا، وقت واپسی پر انکی روح قبض کرنا،قبر میں حساب کتاب کے لیے حاضر ہونا، قیامت برپا کرنے کے لیے اللہ کے حکم پر صور پھونکنا،یہ سب فرشتوں کے ذمے وہ کام ہیں،جن کی تفصیلات قرآن و احادیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں.
یہ سب اس لیے تاکہ ہر بات پر اعتراض کرنے والے انسان جیسے مخلوق کے اور اسکے خالق کے درمیان اس انسان کی ہی عقلی تسلی کے لیے ایک تیسری مخلوق{Third party} اپنی ذمہ داری ادا کرے اور وقت پر اسکے کچے چھٹے یا حسن کارکردگی کی رپورٹ پیش کرسکے!

نتایج مقدمات
إن ساری وضاحت کے بیان کے بعد اپنی بہن سے کہیں کہ بتاؤ کیا فرشتے بھی،انسان کی طرح اللہ کی مخلوق اور حکموں کا پابند نہیں؟ کیا وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرے،تو رب کی شان میں تمہیں نقص دکھای دیتا ہے؟ کیوں؟
اگر ایسا ہی ہے تو پھر تمہیں تو سوال اس پر بھی کرنا چاہیے کہ جب وہ انسان کے احوال سے واقف ہی تھے تو انہیں دنیا میں اعمال و عبادات کا مکلف کیوں بنایا،بس سیدھے جنت جہنم کا فیصلہ کردیتے؟
بلکہ یہ سوال کرو کہ انہیں پیدا ہی کیوں کیا؟براہ راست جنت یا جہنم پہونچا دیتے؟
ٹھہرو!مگر پھر اس پر سوال یہ کیا جاتا! ارے کیا کیا کہ بنا جانچے پرکھے ایک گروہ کو جنت میں اور دوسرے کو جہنم میں بھیج دیا یہ تو سراسر ناانصافی ہے؟ تو اسے کہیے کہ بتاو آخر وہ عقل کے کس سوال کے ساتھ انصاف کرپاتی؟
آج اگر فرشتے حکم الہی کے پیش نظر اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہویے بندوں کے اعمال لکھتے ہیں،جو کہ انکی عبادات ہی ہیں،تو انکی ڈیوٹی پر رب کریم کے عالم الغیب والشھادہ ہونے کے ناطے سوال اٹھ رہا ہے،اگر بنا لکھے حساب کتاب کردیا جاتا تو کیا پھر اعتراض کرنے والے نہیں کرتے؟ کہ ہم نے ایسا کب کیا؟اس کا کیا ثبوت ہے؟

عوامی مثال

آج انسان ایک انسان کو سرکاری راشن کا کوٹہ مہیا کرتا ہے،پولیس کسی ملزم کو گرفتار کرتی ہے،تو رشوت ستانی کے،اقربا پروری کے اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگتے رہتے ہیں،اگر بارش برسانے اور روح قبض کرنے کی ذمہ داری بھی کسی انسان کے حوالے ہی ہوتا تو سوچیے یہ اعتراض و الزامات پھر کس قدر بھیانک ہوتے؟ اور اسکے نتایج کیا ہوتے؟
یہی نہیں اگر فرشتوں سے یہ کام نہیں لیا جاتا براہ راست رب کریم کے "کن فیکون" سے ہی ہوتا تو مادی مظاہر کے خوگر یہی انسان کیا یہ اعتراض نہ کرتا کہ ایک معمولی انسان تو اپنے خدام سے کام لیتا ہے، یہ خالق و مالک کیسا 'عاجز خالق' ہے کہ اسکے پاس ان کاموں کو انجام دینے کے لیے اسکی شایان شان ایک فرشتہ بھی نہیں!
یہی نہیں سوال کا سلسلہ یوں بھی دراز ہوسکتا ہے کہ وہ رب کریم تو ساری کاینات اور اسکے سبھی احوال و نتائج سے واقف ہی ہے،تو رات و دن کے الٹ پھیر کیوں کرتا ہے؟موسم کو ادل بدل کر کیوں لاتا ہے؟آخر ان سب کی کیا ضرورت ہے؟
تو بتایے انکی عقل آخر اسکا کیا جواب ڈھونڈ پایگی؟ اگر یہ سبھی حکم الہی کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دے تو اس پر رب کریم کے عالم الغیب والشھادہ کے ناطے اعتراض و سوال نہیں تو پھر فرشتے کی بطور تیسری مخلوق{as a third party}کی ڈیوٹی اور حکم بجالانے پر سوال کیوں؟
امید ہے کہ جب ان ترتیب کے ساتھ آپ کی بہن فہمائش کی جایگی تو وہ اپنے اس سوال اور جس کسی نے اسکے دماغ میں ڈالا ہے، اسکی علمی حیثیت کے بودے پنی کو سمجھ جایگی! ان شاء اللہ!
دعاؤں میں یاد رکھیں!
رب کریم ہم سبھی کو صواب و سداد کی راہ پر قائم رکھے آمین!
توقیر بدر القاسمی ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
15/01/2021
+919006607678
+919122381549

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں